پاکستان، ایران دہشت گرد تنظیموں پر پابندی عائد کرنے پر متفق

اسلام آباد (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/ڈی ڈبلیو) پاکستان اور ایران نے اپنے اپنے ملکوں میں دہشت گرد تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔

پاکستانی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق وزیر داخلہ محسن نقوی کی ایرانی ہم منصب ڈاکٹر احمد وحیدی اور وزیر قانون امین حسین رحیمی کے ساتھ تفصیلی بات چیت کے بعد اپنے اپنے ملکوں میں دہشت گرد تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا۔

بیان کے مطابق فریقین نے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کیا، جس میں باہمی تعاون اور انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کو مزید بہتر بنانا شامل ہے۔ اس سلسلے میں جلد از جلد سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب رواں برس جنوری میں ایران نے پاکستان کی حدود کے اندر حملہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کو مارنے کا دعویٰ کیا تھا، جس کے جواب میں اگلے ہی دن پاکستان نے ایران کی سرزمین پر بلوچ علیحدگی پسندوں کے خفیہ ٹھکانوں پر حملہ کر کے نو عسکریت پسندوں کو مارنے کا اعلان کیا تھا۔

سفارتی ذرائع کے مطابق سرحدی دہشت گردی اور حملوں کے باعث دونوں ممالک کے مابین طے پایا تھا کہ دونوں اطراف سے سینیئر فوجی افسران کو رابطہ افسر تعینات کیا جائے گا تاکہ سرحدی تنازعات جنم نہ لیں اور موقعے پر ہی معاملات کو حل کر لیا جائے۔ اس مقصد کے لیے بات چیت اور رابطہ افسران کی تعیناتی کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور آئندہ چند روز میں نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا جس کے بعد یہ افسر پاکستان ایران سرحد پر اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔

آرمی چیف سے ملاقات

اس دوران ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی پاکستان آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے دوران پاکستانی فوج کے سربراہ نے دونوں ممالک کے درمیان موجود سرحد کے ساتھ بہتر کوآرڈینیشن کی ضرورت پر زور دیا۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ملاقات میں علاقائی استحکام اور اقتصادی خوشحالی کے لیے مشترکہ کوشش کرتے ہوئے دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا۔

آرمی چیف نے سرحد کے ساتھ بہتر کوآرڈینیشن کی ضرورت پر زور دیا تاکہ دہشت گردوں کو دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان دیرینہ برادرانہ تعلقات کو خطرے میں ڈالنے سے روکا جا سکے۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ دونوں مسلح افواج کے درمیان تعاون کو فروغ دے کر پاکستان اور ایران دونوں اقوام اور خطے کے لیے امن و استحکام حاصل کر سکتے ہیں۔

تجارتی حجم کو دس ارب ڈالر تک بڑھانے کا فیصلہ
پاکستان اور ایران نے مختلف شعبوں میں تعاون کے آٹھ سمجھوتوں پر دستخط کیے۔

مشترکہ پریس کانفرنس

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے باہمی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ ایرانی صدر نے کہا کہ” ایران اور پاکستان کے درمیان اقتصادی اور تجارتی حجم قابل قبول نہیں ہے، ہم نے پہلے مرحلے میں اگلے پانچ سالوں کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔” فی الحال تجارتی حجم تقریباً دو ارب ڈالر ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ، اس میں شک نہیں کہ ایران ان چند ممالک میں سر فہرست ہے جس نے 1947 میں پاکستان کو تسلیم کیا۔ ہمارے رشتے صدیوں پر محیط ہیں، اور اس تعلق کو ہمیں ترقی و خوشحالی اور عوام کی بہتری کے لیے استعمال کرنا ہے۔

دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خطرے سمیت مشترکہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے پر بھی اتفاق کیا۔

دونوں ممالک نے اسمگلنگ اور منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام کے اقدامات سمیت بارڈر مینجمنٹ میں تعاون بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا۔

ابراہیم رئیسی کا یہ دورہ آٹھ سال کے بعد کسی ایرانی صدر کا پہلا دورہ ہے۔ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ہی ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ آئے ہیں۔ وہ لاہور اور کراچی بھی جائیں گے، جہاں کی مقامی انتظامیہ نے عوامی چھٹی کا اعلان کیا ہے۔ابراہیم رئیسی نے وفد کے ہمراہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کی جنہوں نے پیر کی رات ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں