عسکریت پسندوں سے مذاکرات کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جا رہی ہے: وزیر اعلیٰ بلوچستان

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی ) وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات اور بلوچستان میں امن و امان کی بہتری کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی جا رہی ہے۔

منگل کی شب وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پورے پاکستان میں ایک بیانیہ بنا ہوا ہے کہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہییں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مذاکرات کس طریقے سے ہوں، کون آپ سے بات کرنا چاہتا ہے اور کون نہیں کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ سپریم ہے اس لیے پارلیمنٹ اور حکومت نے اس سلسلے میں لیڈ لینی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس سلسلے میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں سے بات کرے گی خواہ وہ پارلیمنٹ کے اندر ہیں یا باہر ہیں۔

وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو، سردار عبدالرحمان کھیتران، شعیب نوشیروانی اور علی مدد جتک پر مشتمل کمیٹی کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ کمیٹی جا کر سیاسی جماعتوں، بلوچ اور پشتون رہنماؤں سے بات کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر مذاکرات سے مسئلہ حل ہوتا ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی خوبصورت بات اور نہیں ہوسکتی۔ تاہم اگر مذاکرات نہیں ہوتے ہیں تو پھر بھی بلوچ اور پشتون رہنما بتائیں کہ جو تشدد کا راستہ ہے اس کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔‘

لاپتہ افراد کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس کو ایک بڑا مسئلہ بنایا گیا جس کی بازگشت پورے پاکستان میں سنائی دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مشکوک موضوع ہے جس پر حکومت پاکستان نے ایک کمیشن بنایا ہے جس نے ان کے بقول لاپتہ افراد کے مسئلے کو 80 فیصد حل کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک فرد بھی لاپتہ ہو تو اس کا کوئی جواز نہیں لیکن یہ تعین کرنا کہ اس کو کس نے لاپتہ کیا ہے وہ ایک مشکل کام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کبھی لوگ سکیورٹی فورسز پر الزام لگاتے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ جو لاپتہ افراد کی فہرست میں تھا وہ دہشت گردی کے واقعے میں مارا گیا۔

’خود روپوش ہونے اور جبری گمشدگی میں بہت بڑا فرق ہے اور خود روپوش ہونے کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ جو کمیٹی بنائی گئی وہ ان تمام معاملات کو دیکھے گی۔ انھوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو اوزار بنا کر ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرنا انتہائی نامناسب عمل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جو تحریک اور تشدد ہے یہ پاکستان کے وجود پر حملہ ہے۔ اس سے نمٹنا صرف سکیورٹی فورسز کا کام نہیں ہے بلکہ یہ لڑائی سیاستدانوں، عدلیہ، میڈیا سمیت سوسائٹی ہر فرد نے لڑنی ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں