مسئلہ بالش خیل اور حکومتی ہٹ دھرمی! (میر افضل خان طوری)

کبھی کبھی حکومت کا رویہ دیکھ کر بند محو حیرت ہوجاتا ہے اور انتہائی افسوس بھی ہوتا ہے۔ جب تمام جائیدادوں کا رکارڈ سرکار کے پاس موجود ہے۔ ایک ایک انچ سرکاری کاغذات مال کے رکارڈ میں ظاہر کی گئی ہے۔ تو پھر یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہے کہ کوئی آ کر کسی قوم کے زمینوں پر ناجائز قبضہ کرتا رہے اور سرکار خاموشی سے تماشہ دیکھتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی کسی کی زمینوں پر ناجائز مکانات تعمیر کرے اور سرکار اس متنازعہ زمین میں قبضہ گروپ کیلئے سرکاری سکیموں کی منظوری بھی دیتا رہے۔

ایسا لگتا ہے کہ پاراچنار میں آج بھی جنگل کا قانون لاگو ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس علاقے میں سرکاری رٹ کا دور دور تک کہیں نام و نشان بھی نہیں۔

یہ دراصل طوری اقوام کیلئے بہت افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ ابھی تک سرکاری سرپرستی میں ظلم اور ناانصافی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
اب ہم اس سرکاری سرپرستی میں جاری نا انصافی اور کھلی زیادتی پر مزید خاموش نہیں رہ سکتے۔ اب اس قوم کے نوجوانوں کو اپنے جائز حقوق کیلئے بالش خیل قوم کا ساتھ دینا ہوگا۔ اپنے پر امن ریلیوں ، مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ وسیع کرنا ہوگا تاکہ ایوان اقدار میں بیٹھے ہوئے زمہ دار افراد کی آنکھوں سے ظلم ، تعصب اور نا انصافی کے پردے ہٹ جائیں اور وہ بالشخیل قوم کی زمینوں پر ناجائز قبضوں کا پوری طاقت کے ساتھ خاتمہ کرے۔ اگر حکومت اس بنیادی ۔مسئلے پر مزید خاموش رہتی ہے تو پھر حالات کی زمہ داری مقامی سرکاری انتظامیہ پر عائد ہوگی۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں