بیٹیوں کی پیدائش پر سماجی رویہ…! (آصف اقبال انصاری)

اب تو کبھی یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ زمانہ جاھلیت اپنی تاریخ دوبارہ دہرا رہی ہے۔ وہ چودہ سو سال کی تاریکی دن بدن دوبارہ سماج پر چھا رہی ہے۔ وہ فساد اپنی پوری طاقت کے ساتھ از سر نو اٹھ رہا ہے۔ جہالت روز بروز اپنا قدم جارہی ہے۔ وہ دور دوبارہ سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، جہاں نہ عزت تھی نہ احترام، اگر کچھ تھا تو بس اپنی انا، انا اور بس انا۔

گزشتہ کل ایک اخبار کی سرخی پر نظر پڑی۔ نظر کا لگنا تھا کہ وہ لگتے ہی ٹہر گئی۔ دل کو ایک جھٹکا سا لگا۔ دماغ سوچوں کے پیرائے میں گھومنے لگا۔ آنکھوں کے گرد کچھ نمی سی محسوس ہونے لگی۔ کھلی آنکھوں کے ساتھ خواب کی دنیا میں چل پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے دل اس طرح تکلیف سے دوچار ہوا جیسے کسی نے قلب پر اپنے پنجوں سے طاقت آزمائی کی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر چھوڑیں!! ذرا آپ بھی اس سرخی پر نظر ڈالیں۔ دیکھتے ہیں آپ کے جذبات اور احساسات آپ میں کیا تاثرات پیدا کرتے ہیں۔

“تیسری بیٹی کی پیدائش پر شوہر نے اپنی بیوی کو قتل کردیا” یہ ہے وہ جملہ جس نے میرے دل پر ایسی ضرب کاری کی کہ لمحہ بھر کے لیے خود کو بے جان تصور کرنے لگا۔ یہ بھی یاد رکھیں! یہ کسی کافر اور غیر مسلم گھرانے کا قصہ نہیں۔ بلکہ یہ تو قصہ ہی نہیں، سچ ہے، حقیقت ہے۔ یہ واقعہ اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا ملک” پاکستان” کے ایک علاقے ” رحیم یارخان” کا ہے۔ میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ اس صنف نازک کا وجود اتنا ہی بے برکت ہے تو سماج میں ایسا کرنے والے کا وجود کیسے ہے؟؟ یقینا انسان کا آسمان سے اترنے کا کوئی واقعہ آج تک ہم نے تو نہیں سنا اور نہ رب العالمین کی یہ سنت ہے۔

قطع نظر شرعی احکامات کے، میں صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ قصور کیا صرف بیوی ہی کا تھا؟؟ جب کہ دنیا میں آنے والا ہر نومولود، مرد اور عورت کے ملاپ کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ نا تو محض مرد کی یہ طاقت ہے اور نا عورت کا یہ مقدر۔ بلکہ وہ بے مثال کتاب تو یوں کہتی ہے: ” آسمانوں اور زمین کی سلطنت وبادشاہت صرف اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دنوں عطا کردیتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔۔۔۔۔ اس کے ہاں نہ لڑکا پیدا ہوتا ہے اور نہ لڑکی پیدا ہوتی ہے، لاکھ کوشش کرے مگر اولاد نہیں ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے۔ جس کے لئے جو مناسب سمجھتا ہے وہ اس کو عطا فرمادیتا ہے۔ (سورہ الشوریٰ ۴۹ ۔ ۵۰)

افسوس کہ یہ کوئی تن تنہا ایک واقعہ نہیں روزانہ ہزاروں واقعات ایسے ہیں جو سماج کی جھولیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ بس بد قسمتی ہے ان چند واقعات کی جو ذرائع ابلاغ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

بیٹی کی پیدائش پر بیوی کو طلاق۔۔۔۔۔ظلم و تشدد۔۔۔۔۔۔۔۔۔نازیبا الفاظ کی بھر مار۔۔۔۔۔۔۔۔۔غیر اخلاقی رویہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساس سسر کے بے جا طعنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر سے نکالے جانے کی دھمکیوں جیسے بے شمار واقعات ہیں جو اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال یہ ہے کہ آخر ان پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

“صنف نازک” جس کو سماج کا بوجھ خیال کیا جاتا ہے، ذرا تعلیمات اسلامیہ میں اس کی قدر و منزلت، مقام ومرتبہ تلاش کرتے ہیں اور خود کو اس پر پرکھتے ہیں کہ سماج جس کو “زحمت” کہتا ہے حقیقت میں وہ کس طرح “رحمت” ہے۔ معاشرہ جس کا وجود “عذاب” سمجھتا ہے وہ کس طرح “باعث ثواب” ہے۔

حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، اور وہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے (یعنی ان کے جو حقوق شریعت نے مقرر فرمائے ہیں وہ ادا کرے، ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے) اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بدولت اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ (ترمذی۔ باب ماجاء فی النفقہ علی البنات)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ہو اور وہ اس کو صبر وتحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی)

یہ ہیں اسلامی تعلیمات جو صنفِ نازک سے متعلق ہیں۔ اسلام نے صنف نازک کو کس طرح لاڈ پیار سے رکھا ہے اور اس کو پیار و محبت دینے والے کے لیے کیسے فضائل بتائے ہیں۔ کاش ہمارا سماج بھی ان کو سمجھ پائے اور بیٹیوں کی پیدائش پر بجائے ماتھے پہ بل اور شکن کے اس طرح خوش اور راضی ہو جیسے وہ بیٹوں کی پیدائش پر ہوتا ہے۔ ساتھ حکومت وقت اور عدلیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات اٹھائیں۔

خدا نخواستہ!! اگر پھر بھی اس کو عار اور شرم محسوس کرتے ہوئے زمانہ جاھلیت کی روش اور نظریے پر قائم رہا گیا تو ڈر ہے کہ ایسے بے حسوں کو حشر میں ان کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے جو بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ در غور کردیا کرتے تھے!!!


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں