قوم کے لاڈلے اور سوتیلے دہشتگرد (ساجد خان)

احسان اللہ احسان فرار ہو گیا۔
کب اور کیسے؟؟؟ یہ کوئی نہیں جانتا کیونکہ جنہوں نے جواب دینا ہے وہ قوم کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ جواب دیں اور جو سوال کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ان میں اتنی جرآت ہی نہیں ہے کہ سوال کر سکیں۔

احسان اللہ احسان کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان تھا اور گزشتہ دو دہائیوں میں طالبان نے جتنے بھی ظلم کئے ان مظالم پر اسلام اور شریعت کی قلعی چڑھا کر پیش کرنے کی ذمہ داری اسی شخص پر تھی۔

اس شخص کی سفاکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اے پی ایس پشاور میں سفاک دہشتگردوں نے قوم کے معصوم بچوں کو گولیوں سے چھلنی کیا تو یہ شخص اس سفاکی کو بھی عین شرعی قرار دیتا نظر آتا ہے۔

احسان اللہ احسان اچانک ہی گرفتار ہو جاتا ہے یا گرفتاری دے دیتا ہے، اس کی گرفتاری کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ اب اس وحشی درندے کے مظالم کے انجام کا وقت آ گیا ہے کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں یہ واحد اہم گرفتاری تھی لیکن اس کے ساتھ جو سلوک اختیار کیا گیا وہ پوری قوم کے لئے حیران کن تھا۔

سب سے پہلے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے اینکر سلیم صافی نے اس سفاک دہشتگرد کے انٹرویو کا اعلان کیا اور اس انٹرویو کی جو جھلکیاں دکھائی گئیں اس سے کہیں یہ ظاہر نہیں ہو رہا تھا کہ وہ ایک ہائی پروفائل دہشتگرد ہے۔

صاف ستھرے کپڑے جس پر ایک سلوٹ بھی نظر نہیں آ رہی تھی،کرسی پر براجمان قہقہے لگاتے ہوئے انٹرویو نے اے پی ایس شہداء کے ورثاء کے غم میں مزید اضافہ کر دیا لہذا انہوں نے پیمرا سے انٹرویو رکوانے کے لئے درخواست دی جو قبول کر لی گئی مگر شاید کچھ مقتدر شخصیات کے نزدیک قوم کی دل آزاری سے زیادہ احسان اللہ احسان عزیز تھا، اس لئے پیمرا کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا گیا جس نے بخوشی اجازت دے دی۔

انٹرویو نشر ہوتا ہے مگر کسی طرح سے بھی ایسا محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کسی انتہائی مطلوب اور خطرناک دہشتگرد کا انٹرویو ہے کیونکہ جس پیار و محبت کے ساتھ سلیم صافی سوالات کر رہا تھا، آج تک اس نے کسی سیاسی جماعت کے سربراہ سے بھی نہیں کیا تھا اور احسان اللہ احسان کو ایک اچھا اور نرم دل انسان کے ساتھ ادیب اور شاعر ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت کرنے کی پوری کوشش کی کہ احسان اللہ احسان تو بس دودھ پیتا بچہ تھا جس کا غلط استعمال کیا گیا ورنہ وہ تو تنہائی میں ان واقعات پر خون کے آنسو رویا کرتا تھا۔

اس انٹرویو کے بعد تین سال گزر جانے کے دوران احسان اللہ احسان کس جیل میں رہا، اس پر کوئی مقدمہ درج کیا گیا یا نہیں، اس کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا لیکن گزشتہ ماہ وہ اس وقت دوبارہ خبروں کی زینت بننا شروع ہوا جب ایک خبر آئی کہ احسان اللہ احسان فرار ہو گیا ہے، جس پر ہمارے اداروں نے مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی۔ اس پراسرار خاموشی سے خدشات بڑھنے لگے اور یوں یہ خبر عالمی میڈیا کی توجہ کا بھی مرکز بن گئی اور چند دن بعد پاکستانی میڈیا نے بھی کانپتے ہاتھوں سے اس خبر کو موضوع بحث بنانا شروع کر دیا لیکن نا ہی ریاستی اداروں کی طرف سے کوئی وضاحت آئی اور نا ہی حکومت نے نوٹس لیا البتہ ایک چھوٹی سی تفصیل ضرور بتائی گئی کہ احسان اللہ احسان ایک خفیہ آپریشن میں فرار ہو گیا لیکن کیا یہ خفیہ آپریشن اسے فرار کروانے کے لئے کیا گیا؟

یہ معمولی سی وضاحت بھی تب دی گئی جب احسان اللہ احسان کا آڈیو بیان سامنے آیا، جس میں اس نے فرار ہونے کا اعتراف کیا اور اب اس نے اس معاہدے کی کاپی بھی ریلیز کر دی ہے جس میں ریاستی اداروں کے ساتھ احسان اللہ احسان کا معاہدہ تحریر ہوا تھا۔

اس معاہدے کی شقیں شاید احسان اللہ احسان کے فرار سے بھی زیادہ حیران کن ہیں۔ اس معاہدے کی پہلی شق میں احسان اللہ احسان کے خلاف جتنی بھی ایف آئی آر پاکستان میں درج تھیں انہیں قانونی طریقے سے ختم کیا جائے گا، اس کے علاوہ اسے کسی جیل یا ٹارچر سیل میں نہیں رکھا جائے گا بلکہ اسے محفوظ مقام پر رکھا جائے گا اور اسے پاکستان آنے پر خوش آمدید کہا جائے گا۔

اس معاہدے کی تیسری شق میں احسان اللہ احسان کا آبائی گھر جسے مسمار کر دیا گیا تھا اسے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔ معاہدے کی چوتھی شق میں احسان اللہ احسان کو ماہانہ جیب خرچ یا ایک کروڑ روپے اقساط میں ادا کئے جائیں گے۔

اس کے علاوہ احسان اللہ احسان کی سیکیورٹی کی ذمہ داری ریاست کی ہو گی اور اسے موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔ یہ شقیں پڑھ کر کہیں سے بھی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کسی انتہائی خطرناک دہشتگرد کی گرفتاری کے لئے ہیں جبکہ یہ سہولیات اور نخرے تو ہمارے سابق صدر آصف زرداری یا سابق وزیراعظم نوازشریف کے بھی جیل میں نہیں اٹھائے گئے۔

یہ معاہدہ اصلی ہے یا نہیں، اس کے بارے میں کہنا مشکل ہے لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر اس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ یہ معاہدہ اسی سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ سے جاری کیا گیا، جس سے احسان اللہ احسان کا آڈیو بیان جاری کیا گیا اور دوسری وجہ ہمارے اداروں کی مکمل خاموشی ہے۔ اس طرح کے دہشتگرد کے یوں نخرے اٹھانے کا پہلا موقع نہیں ہے۔

اس سے قبل ہم دہشتگرد تنظیم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کے معاملہ میں بھی یہی سب کچھ دیکھ چکے ہیں۔ درجنوں شیعہ شہریوں کے قتل اور عدالت میں اعلانیہ انسانوں کے قتل کی سینچری کرنے کا بیان دینے اور عدالت میں موجود گواہان کو قتل کی دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ گواہان کے قتل ہونے کے باوجود اسے اپنے ضلع میں وی آئی پی پروٹوکول ملنا عام سی بات تھی۔

اس دہشتگرد کا مشہور فرمان بھلا کون بھول سکتا ہے جب اس نے عدالت میں جج کو مخاطب کرتے ہوئے گواہان کے بارے میں کہا جج صاحب! مردہ لوگوں کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی اور پھر وہ گواہان واقعی میں مر گئے، کیسے مر گئے یہ عدالت بھی جانتی تھی اور پولیس بھی مگر اس کے باوجود اسے اپنے ضلع میں وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا، بالکل وزیر کی طرح، اس کی گاڑی کے ساتھ پولیس کی گاڑی حفاظت کے لئے چلا کرتی تھی۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے نا صرف اس دہشتگرد کو باعزت بری کیا بلکہ اس سے پہلے ریاست کو حکم دیا کہ ملک اسحاق کے بچوں کو ماہانہ وظیفہ دیا جائے حالانکہ آج تک ملک اسحاق کے ہاتھوں قتل ہونے والے سینکڑوں شہروں کو وظیفہ دینا تو دور انصاف بھی نہیں دیا گیا۔ جب ملک اسحاق جیل سے رہا کیا جا رہا تھا تو ٹی وی چینل جیو نیوز ان لمحات کو براہ راست دکھا رہا تھا۔

یہ ہمارے لاڈلے دہشتگردوں کی چند مثالیں ہیں۔

اس فہرست میں چند ایسے بھی ہیں جو کبھی لاڈلے تھے مگر پھر سوتیلے بن گئے یا کبھی سوتیلے تھے مگر اچانک لاڈلے بن گئے۔ جیسے کے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین جو گزشتہ چار دہائیوں سے وہی سیاست کرتا رہا جس پر چند سال قبل اعتراض کیا گیا بلکہ ماضی میں وہ زیادہ انتہا پسند تھا لیکن اس وقت وہ لاڈلا تھا۔

اس کے علاوہ ایک شخصیت کالعدم تنظیم لشکر اسلام کے سربراہ منگل باغ بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی بس کنڈیکٹر ہوا کرتا تھا مگر پھر پالنے والوں کی نظر کرم اس پر پڑ گئی اور وہ War Lord بنتا چلا گیا، چند سال قبل اس کی کچھ ناراضگی دیکھنے میں آئی اور وہ دشمن بن گیا، بہت سے فوجی جوانوں کے قتل میں بھی ملوث رہا لیکن ایک دو سال قبل اس لاڈلے کے لئے محبت ایک بار پھر جاگ گئی اور اسے دوبارہ اپنا لیا گیا، آجکل شاید وہ لاڈلا ہی ہے لیکن جو قتل عام کیا اس کا کیا ؟

اب جہاں ہمارے معاشرے میں لاڈلے دہشتگرد ہیں وہیں سوتیلے دہشتگردوں کی مثالیں بھی موجود ہیں۔

سب سے بڑا دہشتگرد منظور پشتین ہے جسے اس کی دہشتگردی کی وجہ سے نا ہی کبھی میڈیا کوریج دی گئی اور نا ہی اس کے شکوہ شکایات کو سنجیدہ لیا گیا۔ منظور پشتین کا میڈیا بائیکاٹ اگر دہشتگرد ہونے کی وجہ سے ہے تو پھر احسان اللہ احسان کا انٹرویو کیوں نشر ہوا۔ اس کی دہشتگردی میں کوئی دھماکہ نہیں ہے اور نا ہی کوئی قتل، کسی دھماکے یا ظلم پر شرعی قلعی چڑھانے کا الزام بھی نہیں ہے، بس چند الفاظ ہیں جو پسند نہیں ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک نیوز چینل کے ٹاک شو میں نام نہاد تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے احسان اللہ احسان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ احسان اللہ احسان ذاتی طور پر کسی دہشتگردی میں ملوث نہیں تھا یعنی کہ اس وجہ سے وہ معصوم ہو گیا، پھر یہی تاویل منظور احمد پشتین کے لئے بھی استعمال ہو سکتی ہے لیکن یہ سوتیلا دہشتگرد ہے اس لئے اس کو کوئی معافی نہیں ہے۔

اس کے بعد دو اور دہشتگرد بھی ہیں علی وزیر اور محسن داوڑ، یہ اتنے بڑے دہشتگرد ہیں کہ گزشتہ انتخابات میں الیکشن کمیشن نے انہیں نا صرف الیکشن لڑنے کی اجازت دی بلکہ وہ اپنے حلقوں میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے قومی اسمبلی میں بھی پہنچ گئے مگر اتنے اہم عہدے رکھنے کے باوجود بھی سوتیلا کبھی لاڈلا نہیں بن سکتا۔ منظور پشتین نے اگر غلط کام کیا تو اسے ضرور سزا دیں لیکن احسان اللہ احسان جیسے سفاک ترین دہشتگرد کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرنا چاہئے تھا۔

جلیلہ حیدر ہو یا گل بخاری، انہوں نے کیا دہشتگردی کی کہ احسان اللہ احسان فرار ہو کر نہایت آسانی سے پاکستان سے نکل کر ترکی پہنچ جاتا ہے مگر جلیلہ حیدر کو لندن میں کسی کانفرنس میں شرکت کی اجازت نہیں دی جاتی۔ گل بخاری برطانیہ میں موجود ہے مگر ریاست اسے واپس لانا چاہتی ہے۔ کیا یہ خواتین احسان اللہ احسان سے بھی زیادہ بڑی دہشتگرد ہیں یا یہاں بھی لاڈلے اور سوتیلے کا معاملہ ہے۔

اسی سوتیلے اور لاڈلے کی پالیسی نے ہمارا آدھا ملک گنوا دیا لیکن ہم غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لئے پیدا ہی نہیں ہوۓ۔

میرے خیال سے اب بہت ہو چکا، اب ہمیں اپنی غلطیوں پر نظر ڈالنی چاہئے، ان غلطیوں کو سدھارنا چاہئے کیونکہ احسان اللہ احسان کے فرار اور منظور پشتین کی گرفتاری سے ایک بڑی تعداد کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ یہاں دو قانون ہیں، ایک لاڈلے کے لئے اور دوسرا سوتیلے کے لئے۔

اس سے پہلے کہ آپ کا سوتیلا، قوم کا لاڈلا بن جائے، ہمیں معاملات کو سلجھانے کی مخلصانہ کوشش شروع کر دینی چاہئے ورنہ عوام اور ریاستی اداروں میں ایک ایسا گہرا خلاء پیدا ہو جائے گا جس کا ازالہ کرنا ناممکن ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں