بات کشمیر سے آگے نکل چکی ہے! (اِنشال راؤ)

یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ عمران خان صاحب کا وژن ریاست مدینہ اس کی اپنی ہی نااہل ٹیم کی بدولت اب تک شروع ہی نہ ہو پایا، موجودہ حکومت کے ایک سال گزرنے کے بعد اگر وژن ریاست مدینہ کا بغور مشاہدہ کریں تو محصول یہی ہے کہ ریاست مدینہ تو دور دور تک دکھائی نہیں دیتی البتہ قوم کو مکی زندگی کی طرف ضرور دھکیل دیا گیا ہے، موجودہ حکومت بہت سے وعدے اور دعوے کرکے اقتدار میں آئی جن میں سے ایک بھی وفا نہ ہوپایا البتہ آدھی کہاوت “چیل شور زیادہ مچاتی ہے” کے مصداق حکمران جماعت صرف شور مچانے تک ہی محدود ہے، اگر موجودہ حکومت کی کارکردگی کا تقابل حریف دیس سے کیا جائے تو مودی سرکار کو اقتدار میں آئے دس ہفتے ہی ہوے ہیں اور جو جو وعدے وہ اپنی قوم سے کرکے آئے تھے ایک ایک کرکے ڈنکے کی چوٹ پہ پورے کیے، تین طلاق کا مسئلہ ہو یا کشمیر کے بھارت میں غاصبانہ ضم کرنے کا، کانگریس کو ختم کرنے کا ہو یا پھر بھارت کو ہندوتوا ریاست بنانے کا، مودی سرکار نے ڈنکے کی چوٹ پہ پورے کیے جبکہ ایک ہماری حکومت ہے جن کے بیشتر وزرا کو ابتک یقین بھی نہیں آیا کہ وہ وزیر ہیں اور حکومت میں ہیں، کہا جاتا ہے نیت صاف منزل آسان مگر یہ بھی آدھی بات ہے کیونکہ منزل پہ پہنچنے کے لیے صاف نیت کے ساتھ ساتھ اہل ہونا، بلند ہمتی، عزم و قابل بصیرت ہونا بھی لازم ہوتا ہے بہر حال امید پہ دنیا قائم ہے اور امید کا چورن سب سے زیادہ پاکستان میں ہی بیچا گیا ہے اس لیے روایتی طور پہ امید کی جاسکتی ہے کہ نیت صاف طبقہ شاید کسی نہ کسی وقت آدھے کے کلیے سے باہر آکر پورا ہوجائے، یہاں ہرگز مقصد حکومت کو ہدف تنقید برائے تنقید بنانا نہیں البتہ ارشد شریف کے آٹھ سوالوں پہ توجہ دلانا بھی لازم سمجھتا ہوں کہ آخر وہ کیا گردوں تھا جو ارشد شریف تک آٹھ سوال کرنے پہ مجبور ہوگئے، عین اس وقت جب معروف اینکر اندرونی و بیرونی دشمنوں کی سازش کو بےنقاب کرنے اور ملکی تحفظ کی خاطر جہاد کررہے تھے تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے بس آٹھ سوال پہ ہی اکتفا کیا جن میں وہ سب کچھ کہہ گئے جو نہ تو کسی اپوزیشن کے فرد نے کہا نہ ہی کسی اور نے، ان سوالوں میں ہی اہداف کے حصول میں سست روی و ناکامی، پاکستان کی تباہی کی وجوہات اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ تقریباً سب کچھ ہی کہہ گئے مگر حکومت کو یہ بات بھی غالباً آدھی ہی سمجھ آئی ہوگی، پوری سمجھ آئی ہوتی تو آدھا گھنٹہ کھڑا نہ کرتے بلکہ پورے کے پورے کھڑے رہتے کیونکہ قوم کراچی تا خیبر تک پہلے سے کھڑی ہے جوکہ صرف اس لیے آنکھوں سے اوجھل ہے کہ اندرونی دشمن خواہ وہ میڈیا میں ہو یا سوشل میڈیا پہ، سیاست میں ہو یا بیوروکریسی میں قوم کے جذبات کی صحیح عکاسی نہیں ہونے دیتے، ہمارے ادھورے پن کی بنا پر بات اب مسئلہ کشمیر سے آگے نکل چکی ہے، ہندوتوا دہشتگرد تو اب پاکستان میں شرانگیزی، فتنہ و فساد کا کھلا عندیہ دے رہے ہیں، ہمیں بجائے اینٹ کا انتظار کرنے کے پہلے اندرون صفوں کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہندوتوا دہشتگرد وقتی طور پر تو براہ راست اینٹ نہیں مارنے والے جو ان کا جواب پتھر سے دے پائیں، ان کا تو اعلانیہ پلان اندر سے اینٹیں برسانے کا ہے اور ہمارے کچھ زبردستی معززین سیاہ سیوں و دانشوڑوں کے اینٹوں سے بھرے بیانات و انٹرویو بھی آنا شروع ہوگئے ہیں، کون نہیں جانتا کہ بھارت اسرائیل کا گٹھ جوڑ ہے اور قرآن سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کے شدید ترین دشمن یہود و مشرکین یعنی ہنود ہیں، یہ دونوں اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے، دشمنی دو طرح کی ہوتی ہیں ایک وقتی یا عارضی دوسری دائمی یا مستقل، وقتی دشمنی کسی تنازعے کی بنا پر ہوجاتی ہے جو اس کے حل کے بعد ختم ہوجاتی ہے مگر مستقل و دائمی دشمنی قوموں کی تقدیر اور تاریخ کے ساتھ ہی ختم ہوتی ہے، سابق اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان نے عرب اسرائیل جنگ کے بعد پیرس میں یہودیوں سے خطاب کے دوران کہا تھا جوکہ جیوش کرونیکل 1967 میں شائع ہوا کہ ” ہمیں پاکستان کی طرف سے لاحق خطرات سے بے خبر نہیں رہنا چاہئے کیونکہ یہ ایک نظریاتی مملکت ہے اور یہ ہمارا اولین ہدف ہونا چاہئے” اسی کی روشنی میں اسرائیل نے بھارت کو اپنا اڈہ بنایا اور دونوں نے سلو پوائزننگ کے زریعے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا مگر نقصان پہنچانے والے کوئی اور نہیں ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں، اس بات کا اظہار خود دشمنان پاکستان بھی کرتے ہیں کہ افواج پاکستان ملک کے دفاع سے مخلص ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک منظم طریقے سے افواج پاکستان کے خلاف شد و مد کے ساتھ پروپیگنڈہ مہم بطور ذہنی تخریب کاری جاری ہے، عمران خان جوکہ افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوے اس وقت دشمن کی آنکھ میں سب سے زیادہ کھٹکتے ہیں اور انکی پوری کوشش ہوگی کہ عمران خان کو راستے سے ہٹادیا جائے، لیبیا کی مثال ہمارے سامنے ہے 2008 سے 2010 تک اسرائیل کی طرف سے فلسطینی جانبازوں کو دہشتگرد قرار دلوانے میں زبردست مزاحمت کرنے ہی کے جرم میں عالمی سازش کے تحت معمر قذافی و لیبیا کو سخت سزا دی گئی، بالکل ایسا ہی پلان پاکستان کے لیے بھی تیار کرکے ایپلائی کیا گیا مگر اللہ کی نصرت سے افواج پاکستان نے اسے ابتک تو ناکام ہی کیے رکھا اور انشاءاللہ ہمیشہ دشمن کو ناکامی ہی کا سامنا رہیگا، جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن سے دشمن کو اعصابی تکلیف ضرور پہنچی ہے مگر اس کا فائدہ اٹھانا حکومت کے لیے ضروری ہے اس کے لیے عمران خان صاحب کو آدھے کے کلیے سے باہر نکلنا ہوگا تو یقیناً قوم آپکے ساتھ کھڑی ہوگی مگر کچھ عملی کام ہوتا ہوا تو نظر آئے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں