29

میرے اساتذہ میرا عظیم سرمایہ! (آصف اقبال انصاری)

انسان کی جسمانی نشو نما میں جہاں والدین ذریعہ بنتے ہیں، بالکل اسی طرح انسان کی تربیتی نشونما کا سہرا، استاد کےسر سجتا ہے۔ انسان بچپن سے لڑکپن اور آگے کے منازل طے کرنے میں جہاں اپنے ماں باپ کا محتاج ہوتا ہے، اسی طرح اپنے حسن کردار اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرنے میں کسی استاد، کسی مربی و محسن کا محتاج ہوتا ہے۔ اسلام نے دنیا کوعلم کی روشنی عطا کی۔ استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ” مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے “(ابن ماجہ۔229)۔

’استاد کی حیثیت روحانی باپ کی سی ہے ‘‘۔ استاد کو والد کے ساتھ تشبیہ کیوں دی ؟ جس طرح وجود ِانسانی میں والد کا جس درجہ کا گہرا تعلق ہوتا ہے کہ چاہ کر بھی یہ رشتہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بعینہ اسی طرح زانوئے تلمذ طے کرتے ہی استاد اور شاگرد کا ایسا گہرا رشتہ وجود میں آجاتا ہے کہ موت تو موت ، بعد الموت بھی یہ رشتہ ختم نہیںکیا جاسکتا۔ استاد اگر اس جہانِ فانی سے کوچ کر جائے تب بھی اس کاروحانی بیٹا ان لفظوں سے اپنے محسن اور مربی کو یاد کرتا ہے کہ” میرے استاد فرماتے تھے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام نے استاد کو روحانی والد قرار دے کر ایک قابل قدرہستی، محترم و معظم شخصیت، مربی و مزکّی کی حیثیت عطا کی۔اس کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے جتنا باپ کا اولاد پر۔ ہر عظیم انسان کے دل میں اپنے اساتذہ کے احترام کے لیے بے پایاں جذبات ہوتے ہیں یہی اس کی عظمت کی دلیل ہے۔ ہمارے سامنے یوں تو بے شمار مثالیں اس سلسلے میں موجود ہیں۔ لیکن یہاں صرف سکندرِ اعظم کی مثال پیش کرنے لگاہوں۔ سکندر استاد کا بے حد احترام کرتا تھا۔ کسی نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو سکندر نے جواب دیا:۔’’میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا ۔ جبکہ میرا استا د ’’ارسطو‘‘ مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا ۔ میرا باپ باعث حیات فانی ہے اور استاد موجب حیات جاوداں۔ میر ا باپ میرے جسم کی پرورش کرتا ہے اور استاد میری روح کی‘‘۔ استاد کی رفعت و عزت، مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے،امیر المومنین حضرت علیؑ نے فرمایا :’’جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا، میں اُس کا غلام ہوں۔ وہ چاہے مجھے بیچے، آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔ ‘‘

انسان کی علمی ارتقاء میں جہاں محنت اور مجاہدے کو دخل ہے وہی استاد کی عزت اور ادب سے بھی پہلو تہی نہیں کیا جا سکتا۔ آئیے! ادب کی لازوال مثال دیکھتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ اور آپ کے اُستاد امام حماد بن سلیمان کے گھر کے درمیان سات گلیو ں کا فاصلہ تھا، لیکن آپ کبھی ان کے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے۔آپ دوران درس اپنے اُستادکے بیٹے کے احترام میں کھڑے ہوجایا کرتے ۔امام حماد کی ہمشیرہ عاتکہ کہتی تھیں کہ حضرت امام ابو حنیفہ ہمارے گھر کی روئی دُھنتے، دودھ، ترکا ری خرید کر لا تے اور اسی طرح کے بہت سے کام کرتے تھے۔

امام احمد ایک بار مرض کی وجہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اثنائے گفتگو ابراہیم بن طہمان کا ذکر نکل آیا۔ اُن کا نام سُنتے ہی آپ فوراًسیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا:’’ یہ بات نازیبا ہوگی کہ نیک لوگوں کا ذکر ہو اورہم اسی طرح بیٹھے رہیں ۔‘‘ امام شافعی رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمۃ ﷲ علیہ کی مجلسِ درس بڑی با وقار ہوتی تھی۔تمام طلبہ مؤدب بیٹھتے ۔یہاں تک کہ ہم لوگ کتاب کا ورق آہستہ اُلٹتے کہ کھڑ کھڑاہٹ کی آواز پیدا نہ ہو۔ علماء ہند میں حضرت شیخ الہند محمود حسن ؒ علم و فضل، تقوٰی و طہارت ،جہد و عمل، تواضع و انکساری میں منفرد مقام کے حامل تھے۔شیخ العرب و العجم حضرت حسین احمد مدنی ؒ کو دیکھا گیا کہ باوجود اتنے بڑے منصب پر فائز ہونے کے اپنے استاد شیخ الھند ؒ کے گھر کا پانی اپنے سر پر اٹھا کر لے جاتے تھے۔

بقول شاعر ؎ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

ایک محقق کا قول ہے کہ ’’استاد باشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ پیدا کرتا ہے۔‘‘ نیل آرم اسٹرانگ چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان کے طور پر مشہور ہے، اس نے بھی کبھی کسی استاد کے ہاں حروف تہجی سیکھے ہوں گے۔ اس نے بھی کسی استاد سے دوسروں کو سلام کرنے کی عادت سیکھی ہوگی۔ دنیا کی عظیم شخصیات جن کو دیکھنے کے لیے ہم بے چین رہتے ہیں، ان کو کسی استاد نے ہی اس مقام تک پہنچایا ہے۔

اشفاق احمد لکھتے ہیں، ’’برطانیہ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مجھ پرجرمانہ عائد کیا گیا، میں مصروفیات کی وجہ سے چالان جمع نہ کر سکا تو مجھے کورٹ میں پیش ہونا پڑا۔ کمرہ عدالت میں جج نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ نے کیوں چالان جمع نہیں کیا، تو میں نے کہا کہ میں ایک پروفیسر ہوں اکثر مصروف رہتا ہوں اس لیے میں چالان جمع نہیں کر سکا، تو جج نے بولا The teacher is in the court، اور جج سمیت سارے لوگ احتراماً کھڑے ہوگئے، اسی دن میں اس قوم کی ترقی کا راز جان گیا۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں