تلاجا کے سحر انگیز کھنڈرات! (سید صفدر رضا)

اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو فطرت کے ساتھ پیداکیا ہے جیسے پانی کی فطرت ہے کہ بلندی سے پستی کی جانب بہتا ہے اگ کے شعلے ہمیشہ اوپر کی جانب ا بھرتے ہیں کچھ ایسی ہی فطرت انسان کی بھی ہے چاند پر جانے کے شوق نے کون کون سے مراحل طے کروائے ہیں۔ ہم چاند پر تو نہ جاسکے نہ شوق ہی رکھتے ہیں شمالی علاقہ جات سے واپسی پر نیشنل ٹورزم پاکستان کے عہدیداران جناب ڈاکٹر میاں ذیشان شھزاد رضوان اسلم چوہدری غلام رسول طاہر سے ملنے اسلام آباد پڑاؤ کیا رات کو خوب گپ شپ رہی اور اس میں ہی پنجاب کی ایسی وادی گھومنے کا پروگرام بنا جو قدیم زمانے سے منسوب بھی ہے اورسکندر اعظم اور مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر سے بھی تانے بانے ملتے ہیں ارد گرد کے لحاظ سے یوں بھی منفرد ہے کہ یہاں برف باری بھی ہو جاتی ہے ارادہ مصمم بن گیا چادر تانی اور منزل کے خیالو ں میں سونے کا پتا ہی نہیں چلا وادی کی پراسراریت دیکھنے کے شوق نے صبح سویرے اٹھا دیا منہ ھاتھ دھویا پر تکلف ناشتے سے فارغ ہوئے جسکا اہتمام ہمارے دوست میاں ذیشان شھزاد کی طرف سے تھا سفر کی تیاری کی اور جیسے پرندے صبح سویرے اپنے گھونسلوں کو چھوڑ کر محو پرواز ہوتے ہیں ہم معظم فیاض کی گاڑی پر اپنا سامان لاد کر دوستوں سے رخصت ہوئے ڈاکٹر صاحب کی میزبانی کاشکریہ ادا کیا اس کی ضرورت تو نہ تھی کیونکہ بے تکلف دوستی اور سیاحت کا اپنا ہی مزہ ہے سفر کا آغاز دعاؤں سے ہوا رفتہ رفتہ اسلام آباد کو خدا حافظ کہا اور موٹر وے پر رواں دواں تھے موسم کی اٹھکیلیاں جاری تھیں معظم فیاض کی ڈرائیونگ میں لطف اندوز ہوتے ہوئے تقریبا 130 کلومیٹر کا سفر طے کرکے کلرکہار سے موٹر وے چھوڑنے ہوئے وادی سون کارخ کیا جو خوشاب کی ایک تحصیل ہےہم خوشاب روڈ پر مختلف مناظر دیکھتے ہوئےسفر جنوں پر گامزن تھے کہ کلر کہار سے تقریبا22کلومیٹرپر پیر کچھی والا کی رہنمائی والا بورڈ آیا گویا منزل قریب تھی گاڑی رہنمائی والی سمت مڑی جو قدرے چھوٹا راستہ تھا مگر گاڑی اور موٹر سائیکل کا راستہ ہےگاڑی دربار کچھی شریف پر چھوڑی اور سفر ذوق اور منفرد طرح کی ہائیکنگ شروع ہوئی چلنے سے پہلے زاد راہ ساتھ لے لیا یعنی کھانے پینے کی اشیاء جس کی رہنمائی مل چکی تھی راستہ پتھریلا تھا بہتر تھا مگر گھنی جھاڑیوں میں چھپ رہا تھا جھاڑیوں کے گھنے ہونے کے باعث راہ میں چلتے ہوئے دقت ہورہی تھی جنگلی حیات سے بھی ڈر لگ رہا تھا جانے کس وقت سور یا کوئی اور جانور سے واسطہ پڑ جائے ہائیکنگ جاری تھی بلندی کی جانب سفر جاری تھا کہیں کہیں PTDC پتدک کے رہنمائی کے بورڈ بھی جھاڑیوں کی اوٹ سے جھانکتے نظر آرہے تھے جی ہم قدیم شہر گمنام تلاجا کی جانب گامزن تھے جو بڑی سی ہموار چٹان پر واقع ہے اس علاقہ کو نمک کے پہاڑی سلسلے اور پوٹھوہار نے دور تک کمان کی صورت حصار میں لے رکھا تھا تلاجا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ علاقہ تقریبا 5000 سال پرانی داستان کا امین ہے یہ علاقہ دفاعی اعتبار سے بڑا محفوظ گردانا جاتا تھا بالکل پہاڑکی چوٹی پر واقع دور سے ہی دیکھائی دیتا ہے ہم منزل کے قریب تھے سانس پھول رہا تھا جنون عروج پر تھا کہ سامنے نیچے کی جانب میدانی نظارے دیکھتے ہوئے سبزہ اپنی ہریالی پر نازاں دیکھائی دے رہا تھا یہ علاقہ دفاعی دیواروں حجروں جن کی تعمیر میں چٹانوں کے بڑے اور بھاری بھرکم پتھروں سے ہوئی تھی پر مشتمل ہے اس بستی میں جانے کا ایک ہی غارنما راستہ تھا جو گول اور چوڑے چکنے پتھروں پر مشتمل تھاراہ میں قبر نما نشانات ملے جن سے اس جگہ بسنے والوں کی جسامت قد کاٹھ کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہےسامنے غار نما واحد راستہ تھا جس سے حفاظتی بندوبست کا اندازا لگایا جاسکتا ہے غار میں گھستے ہوئے ڈر لگ رہا تھا مگر غار میں گھسنے کے بعد احساس ہوا کہ کھنڈرات اچھی خاصی بستی کا پتہ دے رہے تھےشہر ویراں کادورہ شروع ہوا بلندی پر یہ کھنڈرات اپنے اندر کی کہانی کے غماز تھے جس کو ہمارے ناقص ذہن سمجھنے سے عاری تھے مگر یہ احساس دل کو تقویت بخش رہا تھا کہ یہاں تک پہنچنے والے دل دہلانے والے مقام اور ایڈونچر کے مداح سیاحوں کی مختصر فہرست میں ہمارا نام بھی شامل ہوگیاکھڈرات سے محسوس ہوتا تھا کہ جن پتھروں سے ان حجروں کی تعمیر کی گئی تھی وہ معمولی نہ تھے ایک پتھر کی سل تقریبا 10 یا12 فٹ لمبی ڈیڑھ سے دو فٹ چوڑی تھی نجانے اس وقت 0 طے کس طرح تعمیر کرنے والوں نے کس طرح استعمال کی ہوگی اور اس بلندی پرعقل حیران ہوتی جارہی تھی بڑے بڑے پتھر شاید پہاڑ کی چٹانوں کو تراش کر استعمال کرتے تھے شاید یہی وجہ تھی جو ایک ہموار میدان بھی نظروں میں منعکس ہو کر رہ گیا ہمیں ایک مربع شکل میں پانی کے بغیر تالاب سابھی دیکھنے کو ملا جو یقینا محاصرے کے مقابلے کے ایام میں پانی کے ذخیرے کا کام دیتا ہوگا جوں جوں وقت گزر رہا تھا عقل محو تماشہ تھی ہمیں جوحجرہ نما کھنڈرات دیکھنے کو ملے وہ ایسے لگتا ہے کہ فیملی کے لئے ایک ایک کمرے پر مشتمل ہیں اسی بھول بھلیوں میں کچھ فوسل بھی دیکھنے کو ملے چھوٹی بڑی ہڈیاں جانوروں کی لگتی تھیں کمال کی بات کچھ پرانے برتنوں کی باقیات بھی ہماری دلچسپی میں اضافے کا باعث بنیں ان سے ملتے جلتے نقش نگار والے برتنوں کی باقیات ٹیکسلا کے میوزیم میں دیکھے جاسکتے ہیں یہ کیا ایک پتھر جو کسی شے کا ڈھکن معلوم ہوتا تھا بیچ میں بالکل گول سوراخ تھا بالکل ایسا ہی پتھر میں نے بت کڑا سوات میں دیکھا تھا جو پانی پر ڈھکنے کے لئے استعمال ہوتا تھا کمال یہ ہے کہ یہ پہیے کی ایجاد سے واقف تھے تبھی تو گول سوراخ تھا یہاں بھی تالاب جنگ کے ایام میں پانی ذخیرہ کرنے کے کام آتا تھا جو ہم نے یہاں تالاب دیکھا مگر سمجھ نہیں آتا کہ پانی آتا کہاں سے تھا اس چوٹی پر لگتا ہے بارش کا پانی ذخیرہ کرتے ہونگے یہاں حجرات وغیرہ لگ بھگ 200 کے قریب یا کچھ زیادہ ہونگے ہمیں ایسا محسوس ہونے لگا کہ ہم بھی اس قدیمی تہذیب سے متصل ہیں کافی گھومنے کے بعد بھوک کا احساس بڑھا معظم بھائی سے پٹاری کھولنے کو کہا فروٹ اور برگر وغیرہ کھائے کچھ چنے اور ڈرائی فروٹ سے واپسی کے لئے جیبیں بھریں واپسی کی راہ لیتے ہوئےاس دیو مالائی داستانوں کے تخیلی مالاگلے مین ڈالے اترنا شروع کیا کہ معظم صاحب نے اس ڈھلوانی میدان کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جگہ اپنے سحر کی بدولت یوں معلوم ہوتی ہے جیسے یہاں مردوں کی باقیات ہیں بڑی اہم توجہ دلوائی معظم بھائی نے ایسا ہی تھا طرح طرح کے پرندے ہمیں اپنی اڑان کے ذریعے پروں سے پیدا ہونے والی آواز سے جیسے الوداع کہہ رہے ہوں ہم سب نے بلند آواز میں اللہ اکبر کی صدا بلند کی تو بازگشت نے اس سناٹے کے ماحول میں ارتعاش پیدا کر کے جیسے جلترنگ بجا دیا ہو تاریخ کے دریچے میں جھانکنے کے بعد ہماری یادوں کے اوراق میں اک پر شکوہ باب کا اضافہ ہونے جارہا تھا سفر ابھی جاری ہے یہ تو وادی سون کا اک لمس ہے ہم نے نوشہرہ کا رخ کیا جو تحصیل وادی سون کی سب تحصیل کا درجہ رکھتا ہے ہائیکنگ کی وجہ سے تھکاوٹ چہروں سے تو عیاں تھی مگر تاریخ کے اوراق پلٹنے پر پھولے نہیں سمارہا تھا ہو سکتا ہے تلاجہ کے کھنڈرات میں تاریخ اپنے بہت سے راز سمیٹے ہوئے ہو مگر ہم ان رازوں سے جمی گہری دھول ہٹانے سے محروم ہی رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں