طاعون اور کورونا کی وباء میں مماثلت (نرجس کاظمی)

وہ بہت دہشت ناک مناظر تھے۔ بے جی (میری دادی) جب بھی ان دنوں کا ذکر کرتیں ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا۔ ان کے ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندیں نمودار ہو جاتیں، لہجے میں خوف در آتا۔ آج بھی جب انہوں نے طاعون کا ذکر خوف میں ڈوبی آواز میں چھیڑا تو  میں اپنی زانو پہ دھری سائنس کی کتاب بند کر، اوپر کہنی رکھ، ہتھیلی پہ ٹھوڑی جما دلچسپی سے بے جی کو دیکھنے لگی۔ بے جی اس وقت آپ کی کیا عمر تھی؟ 9 یا شاید 10 سال، 90 سالہ بے جی نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔ بے جی کیا ہوا تھا آپ کو کچھ یاد ہے۔بے جی بولیں 90 سال پرانا قصہ ہے۔ بہت چھوٹی تھی میں مگر دہشت اور باتیں ایسی تھیں کہ ساری زندگی کیلئے میرے دماغ میں نقش ہوگئی ہیں۔ بے جی اب سوچ میں ڈوبے انداز میں طاعون کا آنکھوں دیکھا، کانوں سنا حال سنانے لگیں۔

شروع، شروع میں دور دیس سے خبریں آنی شروع ہوئیں کہ ایک ایسی جان لیوا بیماری ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے پھیلتی جارہی ہے۔ ہزاروں لوگ اس کا شکار ہورہے ہیں اور یہ چوہوں سے پھیلتی ہے۔ اس بیماری میں سب سے پہلے بخار چڑھتا ہے، پھر کھانسی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بغلوں کے نیچے گلٹیاں نمودار ہونا شروع ہو جاتیں اور انسان موت کے منہ میں چلاجاتا۔ گھر کے بڑے بزرگ توبہ استغفار کرنے اور اللہ سے معافی مانگنا شروع ہوگئے۔ چند ماہ گزرے تو متحدہ ہندوستان میں بھی اس کے اکا دکا کیسز کی شنید ہونے لگی۔ کچھ عرصے بعد تو کہرام ہی مچ گیا، چاروں طرف سے خبریں آنی شروع ہوگئیں۔ ہمارے گاوں میں بھی دوسرے دیہاتوں کی طرح بزرگوں کی پنچایت بیٹھی۔ طاعون کے مرض کی نشانیاں اس سے حفاظت و روک تھام  کے بارے میں معلومات کا تبادلہ ہونے لگا۔

جب سب کو معلوم ہوا کہ یہ وباء چوہوں سے پھیل رہی ہے۔اگر بچنا ہے تو چوہے پہلے ختم کرنے ہوں گے۔ متحدہ ہندوستان میں جہاں ہندو اکثریت میں تھے غیرت اور جوش سے اٹھ کھڑے ہوئے۔چوہوں کو مارنے والوں کو وارننگ دی جانے لگی۔کہ خبردار کسی کٹوے مسلے نے ہمارے بھگوان کو ہاتھ بھی لگایا۔ہم اس کا پورا گھر تباہ کر کے رکھ دیں گے۔ ہندووں کے بیچ میں رہتے ہوئے اپنی جان کوئی بھی خطرے میں ڈالنے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ مسلمان خوفزدہ ہوگئے چوہے نہ مارو تو طاعون مار دے گا۔چوہے مارو تو ہندو مار دے گا۔

شرپسند  ہندووں نے مندر کے چند چالاک پجاریوں کے ساتھ مل کر  پلان بنایا چوہے کو بھگوان سمان رتبہ دیا گیا ہے مندروں میں ہندو اکھٹے کرکے فتوی لگا دو کہ جو بھی چوہوں کو مارے گا اس کا قتل واجب ہوگا۔ تمام مندروں کی گھنٹیاں بجا دی گئیں۔

یہ اعلان سن کر مسلمان دبک  کر بیٹھ گئے۔ اب اگر کسی نے خوفزدہ ہو کر چوہا مار بھی دیا تو ہندووں کو خبر ہو جاتی اور وہ گھر قبرستان میں تبدیل کردیا جاتا۔

اب کیا، کیا جائے کیسے اس موذی مرض کا مقابلہ کیا جائے۔ طاعون  نے پورے ہندوستان میں پکے پنجرے گاڑھ لئے۔ مسلمان اکثریت والے علاقے قدرے محفوظ تو دوسرے علاقے طاعون کا گڑھ ثابت ہونے لگے۔ انگریز حکومت خاموش تماشائی بنے دیکھنے لگی۔ چوہوں کی سیوا کی جانے لگی مکھن، پنیر، اناج کی بھینٹ چڑھائی جانے لگی۔ اچھی خوراک سے ہر طرف دندناتے چوہوں کی تعداد بڑھنے لگی۔اور ساتھ ہی طاعون اب پوری طرح بے نقاب ہوکر ہر طرف شکار کرنے لگا۔ ہندووں کا عقیدہ اپنے پیاروں کو موت کے منہ میں جاتا دیکھ کر ڈھیلا پڑنے لگا۔ یہ کیا بھگوان چوہا تو ہمیں ہی نشانہ بنا رہا۔ چوہے بھی من پسند خوراک کی فراوانی دیکھ کر ہندووں کے فدائی ہوگئے۔ اب ان کا کہیں اور جانے کو من ہی نہ کرتا صرف ہندو گھروں میں گھسے رہتے۔

ہندو کپکپانے لگا۔ ہئے بھگوان اگر چوہے کو مارتا ہوں تو دھرم بھرشٹ ہوجاتا ہے۔ نہیں مارتا تو خود بھسم ہو جاتا ہوں، کدھر جاوں، کیا کروں؟  ہندووں کی ہٹ دھرمی نے گاوں کے گاوں صفحہ ہستی سے مٹانے شروع کر دئیے۔

بے جی کہتی ہیں تیرے شاہ جی (میرے دادا جی) بتاتے 5 مردے دفن کر کے آتے تو دس تیار پڑے ہوتے۔کفن ختم ہوگئے تو فتوے آگئے ایسے ہی کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دو۔ کپڑے ختم ہوئے تو جنازے بھی چھوٹ گئے گڑھے کھدنے لگے۔ ہندووں کے مردوں کو جلانے کیلئے سوکھی لکڑیوں کے ٹال کے ٹال ختم ہوگئے۔ اب سب ہندو مسلمان مل کر بڑا گڑھا کھودتے اور اپنی اپنی لاشیں اس میں ڈال برابر کرنے لگے۔ جس گھر کے سارے افراد مر جاتے۔ ان کی لاشیں گھروں میں ہی تعفن چھوڑنے لگتیں۔ کوئی بھی ان کو گڑھے میں پھینکنے کو تیار نہ ہوتا۔ بے جی جھرجھری لے کر بولیں بیٹا ایسی ویرانی اور ایسی دہشت میں نے پھر  زندگی میں نہ دیکھی نہ سنی۔

موت نے ہندووں کے عقیدے کی بساط الٹا کے رکھ دی تھی۔ ہندو اب خوفزدہ ہو چکا تھا پجاری بھی اب پہلے والی رعونت بھلا چکے تھے۔ہندو نہیں ہوگا تو وہ پجاری کہاں کا، ہندو مر گیا تو سونے چاندی کی بھینٹ کون چڑھائے گا۔ اب مسلمان بھی  ہندووں کو شکائتی نظروں سے دیکھتے اور وہ نظر چرا جاتے۔

انگریز سرکار کی نظریں مکمل طور پر اپنی غلام قوم پر تھیں۔ وہ ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرکے اپنی حکومت گنوانا نہیں چاھتے تھے۔ وہ ہندووں کے مزاج کا ڈھیلا پن محسوس کر چکے تھے۔ موت کے دہشت ناک رقص اور جہلاء کی اموات سے اب ان کا دل اوبھ چکا تھا اور مناسب وقت بھی آچکا تھا۔ پس انگریز سرکار کی طرف سے اعلان کردیا گیا کہ جو شخص ایک بھی مرا ہوا چوہا لائے گا اس کو اناج اور پیسے دئیے جائیں گے۔ہندووں کے فتووں کی  دہشت اب ہندووں کی تعداد کیساتھ ہی کم ہوچکی تھی۔ اب فاقوں سے ادھ موئے مسلمان دھڑا دھڑ چوہا مکاو مہم کا حصہ بن گے۔اور گاوں گاوں صفائی اور چوہوں کے صفایا کا عمل شروع ہوچکا تھا مسلمانوں کے گھروں کے خالی بھڑولے اناج سے لبا لب ہونے لگے دیگر ضروریات کیلئے انگریزوں نے خزانوں کے منہ کھول دئیے، دن رات چوہوں کی تعداد گھٹانے میں جتی قوم کا جوش و خروش اور بڑھ گیا۔

ہندووں نے جب مسلمانوں کی یہ وقتی خوشحالی دیکھی تو دین دھرم ایک طرف رکھ، اپنے گھروں کے موٹے تازے چوہوں کا شکار کرنے میں مسلمانوں سے بازی لے جانے لگے۔ ایک تھیلے میں سارے چوہے بھرتے انگریز سرکار کی خدمت میں حاضر ہوتے اور کھسیانے لہجے میں دانت نکال کر کہتے یہ ان اچھوت مسلوں نے جہر (زہر) دیا تھا غریب ہمارے گھر آ کے مکت ہوگئے۔ سرکار نے نذرانے کا وعدہ کیا تھا ہم نے سوچا کاہے کو فالتو میں پھینک دیویں تو سرکار کی کھدمت میں لے کر حاجر (حاضر) ہو گئے۔پھر منمناتے انداز میں کہتے صاحب گھر میں بھوک پڑی ہے۔ اناج ختم ہوچکا تھوڑی سی کرپا کردیں اور انگریز سرکار ایک طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے۔حکم دیتے کہ ان کو اناج اور پیسے دو یہ تو اپنا بھگوان لے کر آگئے ہیں ہمارے پاس بیچنے۔

میں نےاس مضمون کو عنوان دیا ہے کہ کورونا اور طاعون میں مماثلت، تو مماثلت یہی ہے کہ ہم برصغیر پاک و ہند کے  ہندووں والی غلطی دوہرانے جا رہے ہیں۔ ہمارے مولانا کی ایک ہی ضد کہ جمعہ مسجد میں باجماعت  ادا ہوگا اور سب مسلمان حاضر ہوں۔ پرجوش تقریریں ہورہیں کہ دجالی فتنہ  ہے مسلمانوں کو دین سے دور کرنے کی سازش ہے۔گلے ملو ایک دوسرے کے مصافحہ کرو کہ نبیؐ کی سنت نہیں چھوڑی جاسکتی۔ عوام حکومت کو  کہتی ہم گھروں میں نہیں بیٹھنے والے جاو جو ہوتا ہے کر لو۔ آج انگریز حکومت کی جگہ مسلمان حکومت ہے۔ مگر مزاج انگریزوں والا، پس دے ڈالی اجازت۔ اب آگے کیا ہونے والا  اسی کہانی کو ایک بار پھر پڑھ لیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ دین اسلام تو بچ جائے گا مگر اس کے پیروکار جو اپنی تعداد کی دہشت سے دشمنوں کے سینوں پر مونگ دل رہے۔وہ گھٹ جانی اور یہی تو دشمن کی چال ہے۔ یہی تو وہ چاہتا ہے۔ یہ ہمارے ایمان کی آزمائش ہے۔ دین اسلام میں ان حالات میں گھر پہ عبادت کی اجازت ہے تو پھر ہم مسجدوں میں ہی جا کر نماز پڑھنے پر کیوں مصر ہیں۔ مسجدیں اور دیگر عبادت گاہیں تو دوبارہ آباد ہو جائیں گی۔ پھر ہم اتنی بڑی تعداد میں مسلمان کہاں سے لائیں گے۔ ہمیں وائرس کو مل کر اکیلے ہی رخصت ہونے پر مجبور کرنا ہے۔ اور یہاں حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے جتھے کے جتھے اس کے ساتھ رخصت ہونے پر بضد ہیں۔ ہمیں مل کر اس کے خلاف جہاد میں حصہ لینا ہے۔وائرس کا کوئی دین دھرم نہیں ہے۔ وہ بلا تفریق سب کو لینے آیا ہے ساتھ لے کر ہی جائے گا۔ اللہ ہمارے حالوں پہ رحم فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں