اس جنگ ہم ایک ہیں (سید صفدر رضا)

ہم اس وقت صدی کے بد ترین عذاب سے گذر رہے ہیں اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو اس۔ عذاب سے نجات دے اس عذاب کو اک نئی وبا سے منسوب کیا جارہا ہے جس کو کررونا وائرس کا نام دیا گیا ہے اسوقت جو اس کے اثرات و وار دیکھنے کو ملے ہیں اس نے ثابت کر دیا کہ حضرت انسان جتنی بھی معاشی و سائنسی ترقی کر لے اس۔خالق و مالک کے آگے سب ہیچ ہے مشکل کے آس لمحے میں بھی ہم نہ سمجھیں تویہ ہماری بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہےاس کڑے وقت میں بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ خدمت نہیں سیاست ہو رہی ہے وزیر اعظم جن کی نیت پر شک تو نہیں مگر عمل جس کی ضرورت ہے ذاتی آنا کا شکار نظر آتے ہیں عملاً چاروں صوبوں میں لاک ڈاؤن کی کیفیت ہے بلکے خود انکے زیر نگیں صوبے اور کشمیر و گلگت بلتستان میں بھی سارا عمل جاری ہے مگر وزیر اعظم۔ بضد ہیں کہ لاک ڈاؤن نہیں کریں گے اب وہ کون سا حصہ باقی ہے جہاں لاک ڈاؤن نہیں ہے جانے کیوں کرفیو کا راگ الاپا جا رہا ہے جبکہ کوئی صوبہ بھی۔ کرفیو کے حق میں نہیں یہ وہ اقدامات ہیں جو دنیا بھر میں رائج کر کے اس وبا کے خلاف جنگ لڑنے میں ممد و معاون ثابت ہوئے چائینہ یہ جنگ جیت کر مثال قائم کر چکا ہے وزیر اعظم کا گزشتہ روز کا خطاب جس میں ہمسایہ دشمن ملک کی مثال سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی گئی اس۔ وقت قوم کو یکجا کرنے کا وقت ہےاور ہمیں بجا اپنی قوم پر فخر ہے جس نے آزادی کی جنگ میں تن من دھن وارا پھر 65 کی جنگ میں پاک فوج کی بھر پور حوصلہ افزائی کی آج بھی یہ قوم جو اصل میں قوم رسول ھاشمی ہے ملک کو مایوس نہیں کرے گی خدا کے واسطے اس قوم کو سیاست کی نظر مت کریں پہلے تمام سیاست دان آپس کی۔قدورتیں مٹا کر ملت کو یکجا کریں آپ 25 فیصد افراد کی بھوک کو جواز مت بنائیں بلکہ قوم پر بھروسہ کریں کبھی بھی مایوس نہیں کرے گی ہر شخص اور صاحب ثروت شخص اپنا مذہبی فریضہ گردانتے ہوئے اپنے گردو نواح میں کسی کو بھوکا نہ سونے دے اس کے اس عمل سے رب بھی راضی ہوگا اور ہمسایوں اور غریبوں یتیموں کے حقوق بھی ادا ہونگے بھوک کا دروازہ بند کیا جاسکتا ہے مگر یہ وبا جس کا علاج دریافت نہیں ہوا مگر احتیاط تو ممکن ہے اک جانب وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ایک ایک کمرے میں سات سات افراد رہائش پذیر ہیں دوسری جانب مریض گھر پر ہی قرینطینہ میں رہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے یہ وبائی۔ مرض ہے جس قدر احتیاط ممکن ہے کی جائےاسوقت آنا بھلا کر سب کو یکجا ہونا ہے بڑے قومی مفاد میں صلح حدیبیہ یاد کریں اسلام کے وسیع تر مفاد میں مشرکین اور کفار سے بھی معاہدہ ہو گیا یہاں تو سیاسی مخالفین ہیں قوم کے وسیع تر مفاد میں متحد ہو جائیں سب کی مشاورت سے اس موذی مرض کو شکست دی جائے۔ رہی قوم کی بات وہ تو آپکی وجہ سے تقسیم ہے۔ الگ الگ نظریے الگ الگ جھنڈے صوبوں نے لاک ڈاؤن کیا ہے وزیر اعظم قوم سے خطاب میں پیغام دیتے ہیں کوئی لاک ڈاؤن نہیں عوام پابندیاں توڑ کر باہر آجاتے ہیں ہم بھی عوام کے سزا کے حق۔میں نہیں جو بھی خلاف ورزی کرے اسے مریضوں کی خدمت پر معمور کر دیا جائے یہ محلے میں جتھے بنا کر کھڑے ہونا کرکٹ کھیلنا بغیر مقصد باہر نکلنا غیر اور بے احتیاطی برتنا کہاں کی قومی ذمہ داری ہے خدا کے لئے اس وبا سے لڑنا ہے اس کو شکست دینی ہے تو ہم سب کو احساس ذمہ داری کا ثبوت دینا ہے۔ پاک فوج و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ساتھ دینا ہوگا یہ صرف حکومت یا۔ قومی اداروں کی ہی ذمہ داری نہیں ہم سب۔کو ایک قوم بننا ہے وزیر اعظم کو بھی اپنے حصار سے باہر آنا ہوگا صوبوں کو ساتھ ملا کر اس جنگ کو لڑنا ہے کسی بھی صوبے میں ہونے والی ہلاکت شیعہ، سنی، دیوبندی، سندھی، بلوچی یا پنجابی کی نہیں پاکستانی کی ہے۔ ہمیں گوادر تا خنجراب سب کو ایک ہونا ہے جس کے لئے قومی کوآرڈی نیشن کونسل ترتیب دی جائے ہر صوبے کے معروضی حالات کے مطابق فیصلے ہوں جس میں تمام جماعتیں جو محب وطن ہونے کی دعوے دار ہیں شامل ہوں یہی عمل صوبائی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی و یونین کونسلز کی سطح۔پر ہو تاکہ مراعات کسی سیاسی جماعت کی بجائے قومی سطح پر دی جائیں یہ خیال رہے کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہونے پائے رش یا جھمگھٹا نہ بننے پائے احتیاط کی بنا پر جو لاک ڈاؤن ہے اسے برقرار رکھا جائے خلیفہ راشد کی طرح چپکے سے رات کے اندھیرے میں ضرورت مندوں تک پہننا جائے نہ کہ صابن کی ٹکیہ دیتے ہوئے سیلفی بنائی جائے حکومت سے مکمل تعاون کرنا اور قوانین کا احترام ہر شہری کا ملی و مذہبی فریضہ ہے اور اس جنگ کو۔ سیاسی پلیٹ فارم کی بجائے قومی جھنڈے تلے لڑا جائے آپ رہبروں کے اس عمل سے عوام قومی مذہبی اور ملی جذبے سے سر شار نظر آئے گی عوام بھی اپنے کردار سے ایک قوم ہونے کا ثبوت دے لگنے والی پابندیاں ہماری سزا نہیں ہیں بلکہ ہماری بقا کے لئے حفاظتی تدابیر ہیں یہ وقتی پابندیاں ختم ہو جائیں گی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ارد گرد کوئی بھوکا نہ مرے ورنہ ہمارے گھروں میں موجود اناج کس کام کا کہ ہم اپنے رب اور اس کے رسول اکرم کے بتائے ہوئے رستے پر نہ چلیں ہم اپنے رحیم و رحمان رب کے بارے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ جبار قہار اور عادل بھی ہے ہم اس کے عدل پر پورے نہیں اتر سکتے مگر اس کی رحمت کے طلبگار تو ہمیشہ ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں