ہمیشہ دیر کر دیتے ہو تم (ساجد خان)

ہمارے وزیراعظم صاحب ایک بات میں تو خاص مہارت رکھتے ہیں کہ کبھی بھی صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے کی غلطی نہیں کرتے۔ تب کی بات اور تھی مگر اب غلطی کی گنجائش نا ہونے کے باوجود غلطی پر غلطی کرتے جا رہے ہیں۔
جس کا ازالہ عوام کو جانوں کے نذرانوں سے کرنا پڑے گا۔

پاکستان میں جب کررونا وائرس کے کیسز آنا شروع ہوئے تو وزیراعظم عمران خان صاحب نے لاک ڈاؤن کرنے سے انکار کر دیا مگر سب سے پہلے بندرگاہیں اور گڈز ٹرانسپورٹ بند کرنے کا حکم جاری کر دیا جبکہ ملکی سرحدیں اور ائر پورٹ نا صرف کھلے رہے بلکہ اس معاملہ میں انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا گیا کہ کررونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کو علیحدہ کرنے کی ذمہ داری ان اداروں کو دے دی گئی جو ایسے احکامات کو دیہاڑی کی نوید تصور کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شکایات موصول ہونا شروع ہو گئیں کہ ائر پورٹ پر تعینات اہلکار چھ ہزار روپے لے کر کسی بھی مسافر کو جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر سے آنے والے پاکستانی پورے ملک میں پھیلتے چلے گئے۔جن میں کرونا وائرس کے مریضوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔

دوسری طرف بندرگاہوں کی بندش سے نقصان یہ پہنچا کہ جو عام ادویات بھی پاکستان میں تیار کی جاتی ہیں ان کا خام مال دوسرے ممالک سے درآمد کیا جاتا تھا،اس کی سپلائی بند ہو گئی۔ ہینڈ سینیٹائزر جو کہ عام حالات میں اتنا استعمال نہیں ہوتا تھا اس لئے طلب کے مطابق ہی اس کا خام مال درآمد کیا جاتا تھا لیکن موجودہ حالات میں طلب اچانک سے زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کے خام مال کی ملک میں قلت پیدا ہوتی چلی گئی۔ کلینیکل ماسک پاکستان میں تیار ہوتے تھے مگر اس کو تیار کرنے کے لئے جس کپڑے کی ضرورت پڑتی ہے وہ درآمد کیا جاتا تھا۔ اس بندش سے سب کچھ ٹھپ ہوتا چلا گیا۔

اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ادویات بنانے والی کمپنیوں نے ریاست کو خبردار کر دیا ہے کہ کررونا وائرس سے نبٹنے کا معاملہ تو دور، اب ہمارے پاس پیناڈول کی قلت بھی ہونے جا رہی ہے کیونکہ تمام ادویات کے خام مال کا سٹاک ختم ہو رہا ہے، اس وارننگ کے بعد وزیراعظم صاحب کو احساس ہوا اور انہوں نے گڈز کی آمدورفت کی اجازت دے دی لیکن اس وقت آرڈر آنے میں کچھ وقت لگے گا اور تب تک کررونا وائرس سے لڑنے کے لئے ہماری مکمل تیاری نہیں ہوگی۔ ہمیشہ دیر کر دیتے ہو تم۔

جن ممالک میں کرونا وائرس کے کیسز آنے شروع ہوئے، ان میں سے جن ممالک نے فوراً ایکشن لیتے ہوئے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کر دیا وہ اس وباء سے بہت حد تک محفوظ ہو چکے ہیں لیکن جنہوں نے غفلت کا مظاہرہ کیا، وہ آج روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں لاشیں اٹھا رہے ہیں، اٹلی، امریکہ، اسپین اور ایران کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ پاکستان میں بھی اسی طرح غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔

اول تو وزیراعظم صاحب لاک ڈاؤن کے حق میں ہی نہیں تھے پھر نجانے کیا ہوا، صوبوں نے معاملہ کی نزاکت کو سمجھا اور انفرادی طور پر ہر صوبہ لاک ڈاؤن کا اعلان کرتا چلا گیا۔ عوام کی جہالت اور کچھ ریاست کی لاپرواہی کہ دس دن گزر جانے کے باوجود بھی لاک ڈاؤن پر سنجیدگی سے عمل نہیں کیا گیا۔

کاروبار اور تعلیمی ادارے تو روز اول سے ہی بند ہو گئے مگر مذہبی مقامات پہلے سے زیادہ پر رونق نظر آنے لگے کیونکہ کام سے فراغت اور کررونا وائرس کے خوف سے عوام نے دل بہلانے کے لئے ادھر کا رخ کیا۔
باجماعت نمازیں ادا ہوتی رہیں، جلوس و مجالس بھی ہوتے رہے، یہاں تک کہ تبلیغی اجتماع کو بھی کسی نے سنجیدہ لینے کی کوشش نہیں کی جہاں لاکھوں افراد نے شرکت کرنی تھی اور یہ اجتماع قوم کے لئے ایٹم بم بن سکتا تھا اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔

کررونا وائرس ایک سے دوسرے فرد میں نہایت آسانی سے منتقل ہوتا رہا اور اب جا کر ان غفلتوں کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں کہ جہاں مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے وہیں ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمیشہ دیر کر دیتے ہو تم۔

اب جبکہ حالات خطرناک رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں اور ریاست ان سب افراد کو تلاش کرنے میں بھی ناکام نظر آ رہی ہے جو بیرون ممالک سے واپس آئے یا جنہوں نے تبلیغی اجتماع میں شرکت کی کیونکہ تبلیغی ارکان میں بھی کررونا وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ چند دنوں میں مریضوں کی ایک بڑی کھیپ منظر عام پر آنے والی ہے تو ایسے میں وزیراعظم صاحب کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ ایک بار ہی سخت فیصلہ لیتے ہوئے کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کرتے تاکہ اس وباء کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے مگر وہ اب بھی اس بات پر بضد ہیں کہ غریب طبقے کا نقصان ہو گا۔ اب ان کو یہ بات کون سمجھائے کہ غریب طبقہ کا جو نقصان ہونا تھا وہ تو لاک ڈاؤن میں ہو چکا،ہر قسم کے کاروبار بند ہیں، فیکٹریاں بند ہیں، تعمیراتی کام بند ہیں تو غریب طبقہ کا روزگار تو اب بھی ٹھپ ہے پھر کرفیو لگانے میں ہچکچاہٹ کس بات کی۔

ریاست کا جو رویہ نظر آ رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس لاک ڈاؤن سے حالات سدھرنے کے بجائے مزید بگڑ جائیں گے اور بالآخر آخری فیصلہ کرفیو ہی ہو گا لیکن اگر وزیراعظم صاحب وقت پر فیصلہ کرتے ہوئے پہلے دن ہی اپنے خطاب میں کرفیو کا اعلان کر دیتے تو اب تک ریاست کو حالات کی سمجھ آ چکی ہوتی کہ ملک میں کررونا وائرس کتنا پھیلا ہے اور اس سے کیسے نبٹنا ہے۔

جو حالات چل رہے ہیں اس سے نظر یہی آ رہا ہے کہ غریب طبقہ کی ہمت تو جواب دے ہی چکی ہے لیکن اگر یہی حالات مزید چند ہفتے رہے تو سفید پوش طبقہ بھی بھوک سے نڈھال ہو جائے گا کیونکہ پہلے بے فائدہ لاک ڈاؤن میں روزگار بند تھا اور اب یہ بھی نہیں معلوم کہ حالات کس نہج پر پہنچتے ہیں۔

امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی یہی غلطی کی اور آج امریکہ میں مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جبکہ گزشتہ روز آٹھ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جس کے بعد امریکہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد چین سے تجاوز کر گئی ہے اور اگر صورتحال یہی رہی تو عنقریب امریکہ ہلاک شدگان میں بھی پہلے نمبر پر ہو گا اور ماہرین کی طرف سے اس کے خدشات ظاہر کئے جبکہ امریکی صدر نے بھی آئندہ ہفتے کو امریکہ کے لئے مشکل ترین قرار دے دیا ہے۔

خدانخواستہ ایسا پاکستان میں ہو لیکن غفلت ویسی ہی دکھائی جا رہی ہے کیونکہ ابھی تک ریاست کی طرف سے اس وباء سے نبٹنے کے لئے کوئی جامع پالیسی سامنے نہیں آئی سوائے اس کے کہ ہمیں چندہ دو یا ہم ٹائیگر فورس بنائیں گے۔

سب سے پہلے تو ٹائیگر فورس بنانے میں وقت لگے گا اور پھر ان کو ان کی ڈیوٹی سمجھانے کے لئے کم از کم ایک ہفتہ درکار ہو گا یعنی ایک مہینہ درکار ہو گا اس فورس کو عملی میدان میں آنے کے لئے لیکن تب تک کررونا وائرس کس حد تک پھیل چکا ہو گا اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا جبکہ حکومت کے پاس اس قسم کی وباء سے نبٹنے کے لئے پہلے سے ہی پولیو ورکرز کی شکل میں ایک تربیت یافتہ ٹیم موجود ہے جنہیں اس مہم کے لئے کم وقت میں موثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن وزیراعظم صاحب کو تو ہماری نوجوان نسل کو کام پر لگانے کا شوق ہے، وہ بھلا کسی کی صحیح بات کیوں مانیں گے۔

ان حالات میں تو بس دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان سمیت تمام بنی نوع انسان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ورنہ ہمارے حکمران تو بالکل ہی غافل ہوئے بیٹھے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں