کررونا وائرس کے پھیلائو کی وجہ کیا بنی؟ (وجاہت حسین)

پاکستان میں کررونا وائرس کا پہلا مشتبہ کیس 25 فروری کو سامنے آیا’ مریض کا نام یحییٰ جعفری تھا، جسکی خبر پورے پاکستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی لیکن بعدازاں اس میں اور اسکی فیملی میں کررونا وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی۔ لیکن الگے ہی دن 2 نئے کیسز سامنے آئے، ایک کراچی اور ایک اسلام آباد میں لیکن حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ وہ دونوں کہاں سے آئے تھے البتہ ایک مخصوص طبقے کی جانب سے کررونا وائرس کو ایران سے جوڑ دیا گیا اور ایک طوفان بدتمیزی شروع ہوئی کئی پڑھے لکھے افراد کہنے لگے کہ ایران سے آنیوالوں کو گولی ماری جائے ان کو جلا دیا جائے وغیرہ وغیرہ یہ اس طرح کی کوئی پہلی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ سے ہی سب سے آسان ہدف شیعہ اور ایران رہے ہیں، جب بھی پاکستان میں کوئی مسئلہ بنا اس کا تمام تر نزلہ شیعہ یا ایران پر ڈال دیا جاتا ہے۔ کلمہ حق پر بننے والی ریاست 1947سے لاکر اب تک شیعہ پر کفر ‘ شرک ‘ بدعت’ اور کئی طرح کے گندے القاب سے نوازا جاتا رہا، یہاں تک کے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا احسان بھول کر اس پر بھی کفر کے فتوے لگائے جاتے رہے کیونکہ انکا جرم یہ تھا کہ انکا تعلق اہل تشیع مسلک سے تھا اس کے بعد پاکستان میں سب سے پہلا غدار متعارف کرایا گیا جنکا نام فاطمہ جناح تھا لیکن ہمیں کسی سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ پاکستان میں شیعہ پیدا ہونا جرم تھا اور شیعہ رہنا بھی جرم تھا البتہ شیعہ مرنا آج سے پہلے جرم قرار نہیں دیا گیا تھا۔ 17 نومبر 2019 کو چین میں ایک مریض سامنے آیا جسے چین میں اس بیمار کو کووڈ 2019 یا پھر کووڈ 19 یا کررونا وائرس کا نام دیا اس مریض کا علاج جاری رہا اسی دوران چین کے ڈاکٹر نے انکشاف کیا کہ یہ بیماری انتہائی خطرناک ہے اور انسانوں سے انسانوں میں پھیلتی ہے ‘لیکن چین کی انتظامیہ نے یہ ماننے سے انکار کردیا’ جس سے بعد یہ وائرس آہستہ آہستہ پھیلنے لگا ‘ 2019 کے آخری دن چین میں اس وائرس کے شکار افراد کی تعداد 266 تک پہنچ چکی تھی ‘ لیکن فروری 2020 میں یہ وائرس چین میں انتہائی تیزی سے پھیلنے لگا اور چند دنوں کے اندر اندر اس وائرس نے چین کے شہر ووہان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس کے بعد چین کے شہر ووہان کو مکمل طور پر سیل کردیا گیا ‘ووہان شہر کی گلیاں سڑکیں مارکیٹس ویران و سنسنا ہو گئیں’ لیکن چین میں خوف اس وقت پھیلا جب انکشاف ہوا کہ یہ وائرس انسانوں سے جانور اور پرندوں کو لگتا ہے پھر انہی جانور اور پرندوں سے انسانوں کو لگ جاتا ہے ‘ اب اگر ہم دیکھیں تو انسان کو تو ہم آسانی سے کنٹرول کرسکتے ہیں ‘ لیکن جانور اور پرندوں کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرنا انتہائی مشکل ہے ‘ لیکن وائرس کے پھیلائو کے باوجود پوری دنیا کی آمد و رفت جاری رہی، یہاں تک کہ چین سے لوگ بھی دوسرے ممالک آتے جاتے رہے ۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھوں گا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایران سے لوگ آرہے ہیں اور چین سے کسی کو نہیں آنے دیا گیا تو وہ عالمی میڈیا دیکھ لیں’ عالمی میڈیا کے ایک ادارے نے چین سے پاکستان آنیوالے ایک شہری کا انٹرویو لیا جس میں شہری نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان پہنچنے پر اسے ایئرپورٹ پر چیک تک نہیں کیا گیا ‘ اس کے علاوہ کررونا کے مریض نے بھی انکشاف کیا تھا کہ لاہور ایئرپورٹ پر جب مجھے نہیں آنے دیا تو 6 ہزار روپے دیکر ایئرپورٹ سے آگیا، اب آپ اندازہ لگائیں کہ وائرس پاکستان میں پھیلتا یہ نہیں؟؟ ‘ چین کے بعد سب سے پہلے کررونا وائرس سے جہاں وار کیا وہ ایران تھا ‘ ایران میں جب وائرس پھیلنے لگا تو انہوں نے لاک ڈائون شروع کیا ‘ لیکن ایک بات قابل غور ہے کہ ایران میں جب وائرس پھیلا تو اس وقت تک کوئی پاکستانی حتیٰ کہ کوئی ہندوستانی بھی اس وائرس کا شکار نہیں ہوا ‘ لاک ڈائون کے بعد ایران نے احتیاطً مذہبی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کو بند کرنا شروع کیا۔ کررونا وائرس کے باعث مسلمانوں کی بند ہونیوالے مقدس مقامات میں سب سے پہلے روضہ امام رضا علیہ السلام اور روضہ معصومہ علیہ السلام قم کو بند کیا گیا ‘ جس کے بعد پاکستان میں پڑھے لکھے لوگوں کی جانب سے ایک بار پھر مہم شروع کر دی گئی کہ ان مزاروں سے کچھ نہیں ملتا لیکن یہ سب کچھ کہنے والے یہ بھول گئے تھے کہ یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے، اس کے بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا مقدس مقام (خانہ کعبہ) اور روضہ رسولؐ (مدینہ) کو بھی بند کردیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان میں بھی کرونا وائرس کے کیسز سامنے آنے لگ گئے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ کررونا وائرس ایک عالمی وباء ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا پوری دنیا کے لوگ جو پاکستان میں آرہے تھے کیا وہ رابستہ ایران پاکستان میں داخل ہورہے تھے؟ مسلسل کئی دنوں تک وائرس کو اہل تشیع سے جوڑا جاتا رہا’ یہاں تک کہ حکومت میں موجود اہل تشیع وزیر اور مشیر پر الزام عائد کر دیا گیا کہ وائرس پھیلائو میں مخصوص وزیر اور مشیر ملوث ہیں لیکن یہاں ایک بات قابلِ غور ہے ایران سے جو زائرین پاکستان آتے ہیں ان علاقوں میں اہل تشیع کو سخت خطرہ ہوتاہے حتیٰ کہ ان علاقوں کے مقامی اہل تشیع افراد کی مارکیٹوں کی حفاظ بھی فوج کرتی ہے ‘ ایران پہنچنے والے زائرین کو تفتان میں قائم پاکستان ہائوس مکمل کیا جاتا ہے کہ جہاں سے پاک فوج کی سخت سیکورٹی میں تمام زائرین کو کوئٹہ پہنچایا جاتاہے ‘ اگر ہم آپ کی بات پر یقین کرلیں تو پھر یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ زائرین کو نکلاوانے میں حکومتی زواء کے ساتھ اور لوگ بھی ملوث ہونگے’ یہاں یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ علامہ اورنگزیب فاروقی نے ایران سے آنیوالے زائرین کیخلاف جو درخواست دی تھی اس میں وزراء کیساتھ ساتھ حساس اداروں کے سربراہ پر بھی الزام لگایا گیا تھا کہ وہ بھی ملوث ہیں’ لیکن بات صرف پاکستان کی بھی نہیں ہے ‘ جس وقت یہ وائرس ایران میں پھیلا پوری دنیا کی میڈیا کی نظریں چین سے ہٹ گئیں اور ساری توجہ ایران پر ایسے مرکوز ہوگئیں جیسے وائرس کی ابتداء ہی ایران سے ہوئی ہو’ اور پوری دنیا کی میڈیا جو ہمیشہ سے اہل تشیع کے خلاف رہی انہوں نے کافی رپورٹس بنانا شروع کردیں ‘شائد انکو تو موقع ہی مل گیا تھا کہ ایران میں وائرس پھیل رہاہے ‘ لیکن وہ سب یہ بھول گئے تھے کہ یہ ایک عالمی وباء ہے جس سے بچ پانا فی الحال ناممکن ہے ‘ پھر اچانک اسلام آباد سے 6 تبلیغی جماعت کے افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہر شخص جانتا ہے کہ وائرس کتنا خطرناک ہے ‘ جو فوراً پھیل جاتا ہے’ اب جس مقام پر وائرس کی تصدیق ہوئی وہاں فوراً پھیل گیا ‘ جس کے بعد پورے علاقے کو سیل کردیاگیا ‘ اس کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخونخوا کے شہر مردان میں ایک مریض کی تصدیق ہوئی جوکہ عمرہ کرکے آیا تھا جو چند روز بعد کررونا وائرس سے انتقال کر گیا۔ لیکن اس نے اپنے علاقے میں پہنچتے ہی لوگوں سے ملنا جلنا شروع کردیا’ جس کے بعد پورے علاقے میں وائرس پھیل گیا ‘ جب میڈیکل ٹیموں نے وہاں کے لوگوں کے ٹیسٹ کئے 39 لوگوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی اور جب تحقیقات ہوئی تو تمام افراد اس عمرہ سے آنے والے مریض سے ملاقات کر چکے تھے ‘ ہمیں سوال یہ کرنا چاہئے تھا کہ وائرس پر کنٹرول کیسے کیا جائے لیکن پہلے ہی دن سے ایک بیماری کو ایک قوم و مسلک سے جوڑا گیا تو اب ظاہر سی بات ہے الزام تو دوسروں پر بھی لگے گا، لیکن یہاں ایک بات قابل غور ہے پاکستان میں جتنے لوگ وائرس سے وفات پاچکے ہیں ان میں ایک بھی شخص ایران سے آیا زائر نہیں تھا ‘ ایک بڑی مشہور کہاوت ہے (کسی کا برا نہ مانو اپنے پیش پڑتا ہے) خدا کی آزمائش کو اگر پہلے ہی دن کسی قوم یا مسلک سے نہ جوڑا جاتا تو آج تبلیغی جماعت میں وائرس پھیلنے پر شرمندگی نہ ہوتی ‘ کیونکہ وائرس یا بیماری کسی قوم ‘ مسلک ‘ ملک ‘ امیر ‘غریب میں فرق نہیں دیکھتی ‘دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بیماری سے ہر انسان کو محفوظ رکھے اور جو جو مسلمان اس بیماری سے انتقال کر چکے ہیں انکو جنت میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں