موجودہ صورتحال اور اس کا درد ناک انجام…! (نرجس کاظمی)

پاکستان اور دنیا بھر کے دیگر ممالک میں مکمل لاک ڈاون ہے۔ پاکستان میں حکومت بار، بار عوام کو تلقین کر رہی ہے کہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ سڑکوں، چوکوں اور مختلف جگہوں میں کھڑے پولیس اہلکار کبھی عوام کو مرغا بنا کر، لاٹھیوں سے تشریف سوجا کر تو کبھی تنگ آکر ہاتھ جوڑ عوام کی منت سماجت سے انہیں گھر بیٹھنے کا کہہ رہی۔ ایک وڈیو مجھ تک بھی پہنچی ہے۔ جس نے میرے کان کھڑے کر دئیے۔ اس وڈیو میں ایک پولیس آفیسر جو چہرے سے ہی ایک شریف اور درد مند انسان لگ رہے ہیں۔ ایک موٹر سائیکل سوار شخص جس کے پیچھے ایک 9 یا دس سالہ بچی اور ایک چہرہ چادر سے ڈھکے خاتون بھی موجود ہیں۔سے مخاطب ہوتے ہیں اور بچی کے سر پہ ہاتھ رکھ کے اور پھر ہاتھ جوڑ کے درخواست کرتے نظر آتے ہیں کہ اپنا نہیں تو اپنی بچی کا خیال کرلیں، میں ہاتھ جوڑ رہا ہر ایک کے آگے کہ کورونا بیماری نہیں تباہی ہے۔ اور جب وہ شخص واپس جا رہا ہوتا ہے تو بھی وہ اونچی آواز میں یہی دہراتے جاتے یہ تباہی ہے بیماری نہیں بچ جاو سب اپنے اہل خانہ کو بچا لو اس تباہی سے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک پولیس کا ذمہ دار افسر کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو شعور دے ہراساں نہ کرے۔ مگر انہیں اس بیماری کے حوالے سے جس طرح بریف کیا گیا ہے۔ عوام کی ہمدردی کا دل میں امنڈنا ایک درد مند انسان کیلئے لازمی ہے۔

ہم پولیس والے کی بات کو سچ سمجھتے ہوئے، دنیا بھر کے سائنسدانوں سے متفق ہوتے ہوئے دانشور حضرات، تجزیہ نگاروں کی باتوں کو سچ مانتے ہوئے اور اس وائرس کا بلا تفریق ہر انسان پہ حملہ آور ہوتے ہوئے کی حقیقت  کو تسلیم کرتے ہوئے اور اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو کیا نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ ایک جائزہ پیش کرنے جارہی۔ اس سے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بیماری اب Mass Destruction  ثابت ہونے جا رہی، اس نے برطانوی شہزادے کو نہیں بخشا ہسپانوی شہزادی کی جان لے لی اور ہم عوام لاک ڈاون کو پکنک vacations کا خدائی تحفہ سمجھ کر استفادہ کر رہے۔

یہ میرے گھر کے پچھلی طرف کے گراونڈ کا منظر ہے۔ جوان گراونڈ کی پختہ Pitch پر کرکٹ میچ کھیل رہی ان سے چھوٹی عمر کے بچے اپنی الگ ٹیم بنا کر فٹ بال اور کرکٹ کھیل رہی۔ مرد حضرات ٹولیاں بنا کر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔ دو ، دو، چار، چار کے گروپ بنا کر میرے سامنے بنے کالونی گیٹ سے نزدیکی بازار میں جانے اور وہاں سے واپس آنے والے افراد وقفے وقفے سے نمودار ہو رہے ہیں۔ سامنے ہائی وے پہ موجود ٹریفک ایک لمحے کیلئے بھی معطل ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ہر کوئی موسم بہار کی خوشگوار ہواوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔

میں دیکھ رہی ہوں بادل کے سائے جیسے، جیسے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام اتنی ہی زیادہ گھروں کے باہر اور گراونڈ میں جمع ہوتی جارہی ہے۔ قہقہے لگ رہے قصے، کہانیاں گھڑی جارہی ہیں۔ اور بادل مکمل طور پر ان کے سروں پہ سایہ کئے جا رہا۔ یہ سایہ طویل ہوتا جا رہا ہے، جتنا گہرا ہوتا جا رہا ہے عوام اتنی ہی طمانیت محسوس کرتی جارہی۔گھروں سے باہر نکلنا اتنا ہی پرکشش ہوتا جا رہا ہے کہ یہ نظارہ لوگوں کو گھروں سے کھینچ، کھینچ کے باہر لا رہا ہے۔ نہ جانے مجھے کیوں محسوس ہو رہا کہ جن بادلوں کے سائے کو ہم رحمت کا سایہ سمجھ رہے، وہ سب پہ قہر بن کے ٹوٹنے والا۔ موت کی طرح دھیرے، دھیرے بڑھتے آسمان پر  پھیلتے سرمئی سیاھی پھیلاتے یہ سائے  مجھے موت کا سایہ لگ رہا ہر ایک کو اپنے دلفریب دلکشی سے مسحور کر کے زندگی کی پناہ گاہ سے گھسیٹ کر موت کی وادی کی طرف لے جاتا لگ رہا ہے۔

مجھے یہ موسم اپنے بچپن میں پڑھی کہانی Pied piper of Hamelin کا Pied Piper دکھائی دے رہا ہے جو اپنی محسور کن دھن سے پہلے ساری وادی کے چوہے اور پھر آخر میں ہنستے کھیلتے بچوں کو اپنے پیچھے لگا کر ہمیشہ کیلئے غائب ہونے والا لگ رہا ہے۔ یہ موسم اتنا حسین ہے کہ مجھے بھی پکڑ کر چھت سے نظارہ کرنے پہ مجبور کر رہا ہے۔ اس سے زیادہ یہ حسین موسم مجھے مجبور نہیں کرسکے گا کہ مجھ پہ اس کے اثرات ویسے نہیں ہیں کہ جیسے میں دوسروں میں دیکھ رہی۔اپنے گھر میں خود کو سختی سے قید کئے ہونے کے وعدے کو میں اس وقت تک نبھانے کا عہد کئے ہوئے ہوں۔ جب تک حالات معمول پہ نہیں آجاتے اور یہ کب ہوتا ہے نہ میں جانتی نہ آپ۔ گھر میں ضرورت کا سب سامان رکھ کے میں بھی آپ کی طرح انتظار کر رہی ہو۔ گراونڈ میں بچوں اور مرد حضرات کی بڑھتی ہوئی تعداد مجھے قید کی طوالت کا یقین دلا رہی۔

میں اس وقت کا انتظار کر رہی کہ جب میرے گھر کے سامنے موجود گراونڈ کی رونق اجڑ جانی، میرے گھر کے پچھلی طرف موجود ہائی وے پہ ٹریفک کا تسلسل مکمل طور پہ تھم جانا۔ یہ کب ہوگا؟؟ جب کورونا وائرس نازک بادلوں کے سائے کی بجائے اپنی گھن گرج کے ساتھ ہم سب پر قہر بن کر ٹوٹے گا۔ سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ کچھ دیر سے ایسا ہوگا مگر ہوگا ضرور کہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے، پھر بھیانک لمحات کی طوالت صدیوں پہ محیط معلوم دے گی۔

ہماری معیشت پہلے ہی دگرگوں ہے۔ کیا یہ سب سہہ پائے گی؟؟؟ ہرگز نہیں جب موت کا منہ مکمل طور پہ کھل جائے گا تو اس کی واہیاتی زمین سے لے کر آسمان تک طویل معلوم ہوگی، کبھی بند نہ ہونے والا، ہر چیز ہڑپ کر لینے والا۔ معیشت عوام قدرتی وسائل ہر چیز۔ پھر ہر طرف سے عجیب صدائیں برآمد ہونگیں۔ اپنے رب سے پناہ کی طلب، لہجوں کی گڑگڑاہٹ ترلا منت سب۔ مگر سننے والا وہ ایک ذات جس سے ہر ذی روح ہی امیدیں وابستہ کرے گی۔ وہ سنے گا ضرور سنے گا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی، بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ بہت کچھ پار لگ چکا ہوگا۔ بہت کچھ مٹ چکا ہوگا۔ 

اپنا تبصرہ بھیجیں