زمین انسان سے پناہ مانگ رہی ہے (ساجد خان)

خانہ کعبہ بند ہے، بیت المقدس بھی بند پڑا ہے۔ ویٹیکن سٹی کے ساتھ ساتھ تمام مذہبی مقامات ویران نظر آ رہے ہیں۔ ملحدین خوش ہیں کہ دنیا کے تمام مذاہب بے نقاب ہو گئے لیکن سائنس کے بل بوتے پر خود کو خدا قرار دینے والے ممالک کون سا محفوظ ہیں، آج جہاں سب مذاہب بے بس نظر آ رہے ہیں وہیں سائنس نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں۔

جہاں چند گھنٹوں میں ایٹم بم تیار ہو رہا تھا، دنیا کے کسی نا کسی کونے میں ایسی جدید ایجادات کی جا رہی تھیں کہ جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، وہیں ابھی تک نزلہ اور زکام جیسی معمولی بیماری کا علاج نہیں نکالا جا سکا۔ یہ سائنس کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے۔

بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ دنیا لاوارث ہے، اسے کوئی نہیں چلا رہا تھا بس انسان ہی اس دنیا کے نظام کو چلا رہا تھا اور آج انسان بھی بے بس نظر آ رہا ہے۔ پوری دنیا خوف میں مبتلا ہے، ہر طرف سے لاشوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ دنیا خوفزدہ ہے کہ اگر اس وباء سے بچ گئے تو غربت و افلاس سے مر جائیں گے۔

ایک طرف تو تباہی ہی تباہی نظر آ رہی ہے لیکن دوسری طرف کچھ اچھی خبریں بھی ہیں۔ سولر سسٹم میں جو دراڑ پڑ رہی تھی اور سائنس دان اس سے بہت بڑا خطرہ محسوس کر رہے تھے، اب وہ دراڑ بھرنے لگ گئی ہے۔ دنیا بھر میں آلودگی ایک بہت بڑا خطرہ بنتی جا رہی تھی لیکن گزشتہ ایک ماہ میں آلودگی میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ سمندر، دریا اور نہریں صاف و شفاف نظر آ رہی ہیں کیونکہ ان کو آلودہ کرنے کے لئے انسان موجود نہیں ہیں۔ وہ قتل و غارت،وہ لوٹ مار جو پوری دنیا میں پھیل گئی تھی وہ کم ہو گئی ہے۔ بچوں سے جنسی زیادتیاں کم ہو گئی ہیں، اب کسی بچی کی زیادتی شدہ لاش ویرانے سے نہیں ملتی۔ چرند و پرند چند دنوں سے خوش نظر آ رہے ہیں کیونکہ اب صرف شوق کے لئے ان کی جان نہیں لی جاتی۔

آپ اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہر صدی میں ایسی ایک وباء ضرور آتی ہے جب انسان کو صرف اپنی جان بچانے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ شاید یہ زمین کچھ دن انسان سے پناہ چاہتی ہے تاکہ جو زخم انہوں نے دیئے ہیں اس پر مرہم رکھا جا سکے لیکن یہ کام زمین کا نہیں ہے کیونکہ اگر زمین کے پاس یہ اختیار ہوتا یا وہ اتنی طاقت رکھتی تو کب کا انسان کے غیر مناسب رویہ کے خلاف احتجاج کے طور پر ایسا کر چکی ہوتی یا سرے سے اس کی اجازت ہی نا دیتی، یہ زمین ایک ماں کی طرح ہے اور اس کے لئے ہر وہ مخلوق جو اس پر بستی ہے یا اس سے رزق حاصل کرتے ہیں،اولاد کی طرح ہے۔

جب زمین کی نظروں کے سامنے ایک اولاد اپنے ذاتی مفادات یا شوق کے لئے دوسری اولاد کا قتل عام کرتی ہو گی تو زمین کو کیسا محسوس ہوتا ہو گا اور وہ اپنی شدید خواہش کے باوجود اس ظلم کو نہیں روک سکتی تو اس کا مطلب ہے کہ یہ نظام نا ہی انسان چلا رہا تھا اور نا ہی زمین کی خواہش کے مطابق چل رہا ہے بلکہ دور کہیں ایک طاقت ہے جو نہایت خاموشی کے ساتھ اس نظام کو سنبھالے ہوئے ہے، یہ ضرور ہے کہ وہ کبھی کبھار زمین کی التجا پر اسے کچھ دن کے لئے انسان کی حرکتوں سے چھٹکارا دے دیتی ہے تاکہ زمین کو آرام مل سکے لیکن انسان کے اعمال کو وہ ہستی دیکھ رہی ہے گو کہ انسان اسے نہیں دیکھ پاتا، جس کی وجہ سے انسان اس کے وجود کا ہی انکار کر دیتا ہے مگر کبھی کبھار وہ طاقت اپنے ہونے کی نشانیاں دیتی ہے تاکہ انسان تھوڑا سنبھل جائے۔ وہ طاقت سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے مگر خاموش رہتی ہے بس کبھی کبھار انسان کو اپنے ہونے کا یقین دلاتی ہے اور تب انسان خود کو بے بس تصور کرتا ہے۔ انسان جتنا بھی طاقتور بن جائے مگر کبھی کبھار وہ خود کو بے بس تصور کرتا ہے، کررونا وائرس بھی اسے اپنی اوقات دکھا رہا ہے۔

قدرت ہمیں انسانیت کا سبق دے رہی ہے کہ جب ایک طاقتور ملک کسی لالچ کے تحت کمزور ملک پر حملہ کرتا ہے تو وہاں بھی ایسے ہی لاشیں پڑی ملتی ہیں، وہاں بھی ایسے ہی خوف ہوتا ہے لیکن تمھیں اس کی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ تم طاقتور ملک کے شہری ہو۔ تمھیں یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس ظلم کے جواب میں تمھیں سزا ملے گی لہذا ہر کمزور پر ظلم تمھارا بنیادی حق بن جاتا ہے۔

آج وباء امریکہ میں پھیل رہی ہے، یورپ میں پھیل رہی ہے مگر افریقہ جیسا پسماندہ خطہ بہت حد تک محفوظ ہے۔ افغانستان اور یمن جیسے غریب ترین ممالک جہاں صحت کی سہولیات نا ہونے کے برابر ہیں وہاں کرونا وائرس کا خوف نہیں ہے لیکن نیویارک اس وباء کا گڑھ بن چکا ہے جو دنیا کے ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہوتا ہے۔

آخر کوئی تو ہے جو بتانا چاہتا ہے کہ تم طاقت کے نشہ میں بیشک خود کو خدا سمجھنے لگ جاؤ لیکن تم سے بھی بڑی ایک طاقت موجود ہے جو تمھیں معمولی سی بیماری کے سامنے بے بس کر دے گی بالکل نمرود کی طرح جو تمھاری طرح انتہائی طاقتور تھا اور اس غرور میں خود کو خدا سمجھ بیٹھا تھا مگر پھر ایک چھوٹے سے مچھر کے سامنے تمام تو طاقت ہونے کے باوجود بے بس ہو گیا۔ آج بھی یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ اس دنیا کے قانون سے تم بالاتر ہو سکتے ہو مگر قدرت کے قانون سے کوئی نہیں بچ سکتا۔

آج ترقی یافتہ ممالک کلینیکل ماسک پر لڑ رہے ہیں، امریکہ جو خود کو دنیا کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا تھا آج بحری قزاقوں کی طرح معمولی سے ماسک کے لئے بحری جہاز لوٹ رہا ہے۔کیا امریکہ این 95 ماسک تیار نہیں کر سکتا تھا، بالکال کر سکتا تھا، وہ ملک جو آواز سے زیادہ تیز رفتار جنگی جہاز بنا سکتا ہے اس کے سامنے کررونا وائرس یا ماسک معمولی معاملات تھے مگر قدرت نے اسے بے بس کر دیا ہے۔

اب وہ طاقت کون ہے جس کے سامنے پوری دنیا کی ٹیکنالوجی نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں، کوئی اسے اللہ کے نام سے جانتا ہے تو کوئی بھگوان کہتا ہے اور کوئی اسے گاڈ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ ہر ایک مذہب نے اس کے مختلف نام رکھے ہوئے ہیں اور کوئی اس قدرت کے وجود کا مذاق اڑاتا ہے مگر اکثر و بیشتر ایسی آفات سے اس طاقت کے ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔

وہ ہے اور رہے گا خواہ ہم رہیں یا نا رہیں خواہ کوئی اسے مانے یا نا مانے۔ وہ جو رحیم بھی ہے اور بے نیاز بھی ہے وہ ازل تا ابد رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں