مسلمانوں پر وباؤں کے پھیلنے کے معاشرتی، سیاسی اور روحانی اثرات (حاجی محمد لطیف کھوکھر)

عمومی طور پر مسلمانوں کی تاریخ اپنے مختلف مراحل میں اور عالمِ اسلام جغرافیائی طور پر اپنے مختلف علاقوں میں متعددمصائب اور وباؤں کا بہت شکا ر رہی ہے، سوال یہ ہے کہ مسلمانوں پر ان کا کیا اثر ہوا؟ اورمسلمانوں نے ان وباؤں کا مقابلہ کیسے کیا؟ ان سے تحفظ کیلئے اسلامی عقیدے کی روشنی میں مسلمانوں نے کیا اقدامات کیے؟اسلامی تاریخ میں وباؤں کے پھیلنے کی وجہ سے معاشرتی، سیاسی اور روحانی کیا اثرات رونما ہوئے؟۔جو قومیں طاعون اور وباؤوں کا شکار ہوتی ہیں ان پر اس کے اثرات بڑے بھیانک ہوتے ہیں، لوگ ہلاک ہوتے ہیں، حکومتوں کے امن وامان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، زوال اور انحطاط کا خطرہ منڈلاتا ہے، یہ وبائیں اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی مصیبتیں ہوتی ہیں، ان ہی کو اپنا شکار بناتی ہیں جن کو اللہ تعالی شکار بنانا چاہتا ہے، یہ اللہ کی تلوار ہوتی ہیں جن کو چاہتا ہے اس کے ذریعے رحمت یا عذاب کے مقصد سے مارتا ہے، اس لیے وبائیں حکومت اور قوم کے امن وامان کے لیے خطرہ ہوسکتی ہیں، طاعونِ عمواس مسلمانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ تھا اور بہت ہلاکتوں کا سبب بنا تھا، بیس ہزار سے زیادہ لوگ اس میں مارے گئے تھے، جن میں مسلمانوں کے بہترین قائدین بھی تھے، یہ تعداد شام میں ان کی آبادی کی آدھی تھی، حقیقت میں اگر روم والے شام میں مسلمانوں کو درپیش اس مصیبت کو بھانپ لیتے اور حملہ کردیتے تو مسلمان فوجوں کے لیے ان کا دفاع کرنا مشکل ہوجاتا، لیکن رومیوں کے دلوں میں مایوسی نے گھر کرلیا تھا، اس لیے وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ نہیں سکے۔
معاشرتی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو مثال کے طور پر معلوم ہوگا کہ عہدِ مملوکی میں آبادی کے ڈھانچے میں توازن باقی نہیں رہا، جس کی وجہ سے شہروں اور دیہاتوں میں آبادی کی کثافت میں توازن بڑی حد تک بگڑ گیا، کیوں کہ بہت سے گاؤں وبا کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوئے،جس کے نتیجے میں آبادیاتی تبدیلی واقع ہوئی، کسانوں کی تعداد بہت کم ہوگئی، زراعتی پیداوار میں بڑی کمی آئی اور جانوروں کی نشو ونما پر بڑا اثر ہوا، ان سب کے نتیجے میں قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، جس کی وجہ سے معاشی حالات بد سے بدتر ہوئے، کمزور دل تاجروں اور کاریگروں نے اس بحران سے فائدہ اٹھانا شروع کیا اور اپنی مال داری میں اضافہ کرنے کے لیے بنیادی ضرورتوں کے ساز وسامان کو ذخیرہ بنا کر رکھنے لگے، جب کہ دوسری طرف محتاج اور فقیر چوری کرنے پر مجبور ہوئے، جس کی وجہ سے معاشرے میں اخلاقی گراوٹ پیدا ہوگئی، اس وبا کی وجہ سے بہت سے متقی اور دین دار لوگ، صالح علماء بھی انتقال کرگئے، جس کی وجہ سے دینی مرجعیت کو بھی زوال ہوا، یہاں تک کہ اس زمانے میں لوگ شعبدہ بازوں اور کاہنوں کی طرف رجوع ہونے لگے تاکہ ان کے پاس اپنے روحانی خلا کو پورا کرسکیں۔ طاعونِ عمواس کے موقع پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم کا فرمان ہے کہ۔”جب تم کسی علاقے کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون ہوا ہے تو وہاں مت جاؤ، اگر کسی علاقے میں طاعون ہو اور تم وہیں پر ہوں تو وہاں سے بھاگتے ہوئے مت نکلو”۔ اس حدیث میں آج جو سائنسی اور عملی طور پر منتشر وباؤوں کے مقابلے کے مقصد سے پابندی لگائی جاتی ہے یعنی لاک ڈاؤن کیاجاتا ہے اس کی طرف واضح اشارہ ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس کا ہی حکم نہیں دیا ہے کہ اس علاقے میں نہ جائے جہاں پر وبا پھیلی ہے، بلکہ اس کے بعد یہ بھی حکم دیا ہے کہ طاعون زدہ علاقے سے نکلا بھی نہ جائے، تاکہ اس متعدی بیماری کو پھیلنے سے بچایا جاسکے، کیوں کہ لوگوں کے وہاں سے نکلنے کی صورت میں وبا دوسرے علاقوں تک پہنچ جائے گی۔ اسی وجہ سے یہ حدیث ایک معجزہ ہے جس کو طبِ نبوی کے رجسٹر میں شامل کیا جانا چاہیے۔اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدینہ واپس ہوئے، شام میں نہیں گئے، جب کہ آپ شام جانے کے ارادے سے سفر پر نکلے تھے، یہ موت سے بھاگنے کے لیے نہیں تھا، جب ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو مدینہ واپس ہونے کا سبب یہ کہتے ہوئے دریافت کیا کہ کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: کاش تمہارے علاوہ کوئی دوسرا یہ سوال کرتا، جی ہاں، ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔جب کہ ابوعبیدہ بن جراحرضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ شام میں وبا پھیلنے کے بعد رکے، وہاں سے نہیں نکلے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ شام کے گورنر ہوئے تو اس کے بعد ہی وبا ختم ہوئی، انھوں نے لوگوں میں خطاب کیا اور کہا۔ اے لوگو! جب یہ وبا آتی ہے تو آگ کے بھڑکنے کی طرح بھڑکتی ہے، اس لیے پہاڑوں میں جاکر اس سے بچو۔ پھر وہ خود بھی نکلے اور لوگ بھی نکلے، اور الگ الگ ہوگئے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اس وبا کو دور فرمادیا۔ یہ خبر حضرت عمر کو پہنچی تو اس کو ناپسند نہیں کیا۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عمرو رضی اللہ عنہ نے وبا کے شکار لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ ہونے اور ایک ساتھ نہ رہنے کا مشورہ دیا۔ تاکہ متعدی مرض کے منتقل ہونے کا فیصد گھٹا دیا جائے اور جماعتوں کی شکل میں یہ بیماری لوگوں کو ہلاک نہ کردے، بلکہ صرف وہی ہلاک ہو جس کو یہ مرض لاحق ہوا ہے، جس کی وجہ سے دوسرے لوگ اس کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔ بعد میں مسلمانوں نے طاعون اور وباؤوں سے مقابلے کے طریقوں کو ترقی دی ۔مملوکی عہد میں شام اور مصر کے باشندوں کو کثرت سے لاحق ہونے والی اور پھیلی ہوئی وباؤوں کا مقابلہ کرنے کے لیے چند سلاطین اور مال دار مسلمانوں نے ثواب اور تقرب الی اللہ کے مقصد سے پورے شام میں ہسپتال بنائے، تاکہ طاعون زدہ اور بخار وغیرہ وباؤوں کے شکار لوگوں کا علاج کیا جاسکے، لوگ چوں کہ وبا کے زمانے میں کثیر تعداد میں مررہے تھے اور تین تین دنوں تک ان کی لاشیں اٹھائی نہیں جارہی تھی اور بیماری منتقل ہونے کے خوف سے لوگ لاشوں کو دفن بھی نہیں کررہے تھے، چند حکام اور مال داروں نے اسلام کی تعلیمات کے مطابق جتنی جلدی ہوسکے جنازوں کو دفنانے اور انسان کے احترام واکرام کی حفاظت کی غرض سے تابوت فراہم کیے اور جنازوں کو نہلانے کے مراکز قائم کیے، جہاں مسلمانوں میں سے فقراء اور مساکین کے غسل اور کفن کا اہتمام کیا جاتا تھا اور اسلامی شریعت کے مطابق ان کی تدفین عمل میں آتی تھی۔لوگ ایسے سخت ترین مواقع پر بھی اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے اور اس کی طرف رجوع ہونے اور دعائیں کرنے سے غافل نہیں رہے، صالحین اور عبادت گزار لوگوں نے اللہ سے توبہ کرنا، اس سے مغفرت طلب کرنا اور اپنی عبادتوں میں اضافہ کرنا شروع کیا، اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بہت سے لوگوں نے شراب کی دکانیں بند کرنا شروع کی، اور لوگ فحش کاموں اور منکرات سے دور ہونے لگے۔ تاہم لاک ڈاؤن کو نافذ کرنے کا مسلمانوں کو پہلے سے تجربات ہیں، مراکش میں 1798ء میں طاعون پھیلنے سے پہلے مراکش کے لوگ لاک ڈاؤن نافذ کرنے اور مشرق سے آئی ہوئی وبا سے بچنے کی غرض سے کاروائیاں کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، وہ اس وبا کو روک تو نہیں سکے، لیکن اس کو کئی سالوں تک موخر کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، اس طاعون کی شروعات اسکندریہ میں 1783ء میں ہوئی تھی، اس وبا کے اپنے علاقے میں آنے سے روکنے میں ان تدابیر کا بڑا ہاتھ ہے جو سیدی محمد بن عبد اللہ نے اپنے علاقے کو الجزائر میں پھیلی ہوئی وبا سے بچانے کے لیے کیا تھا، انھوں نے مراکش کی مشرقی سرحدوں پر ایک فوجی چوکی بنائی تھی، اور طنجہ میں مقیم کونسل کمیٹی نے 1792ء میں سمندری حدود پر احتیاطی اور پرہیزی کارروائیاں شروع کردی، یہ کام اس وقت کیا گیا جب مولای سلیمان کی طرف سے جزائر جہاں اس وقت وبا پھیلی ہوئی تھی کے خلاف لاک ڈاؤن نافذ کرنے کی موافقت حاصل کی گئی۔ موجودہ حالات میں اس بات پر یقین اور اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کا عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اگر ہم نے اس مرض اور مصیبت پر صبر کیا تو ہمیں اجر وثواب ملے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں