فرقہ واریت…گناہ عظیم! (ڈاکٹر سید نیاز محمد ہمدانی)

گناہ و ثواب کا تصور مسلمانوں کے اذہان میں بچپن سے ہی ڈال دیا جاتا ہے۔ گناہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ کام ہیں جن سے اس نے ہمیں منع کیا ہے۔ گناہوں کی دو اقسام ہیں: چھوٹے گناہ جنہیں گناہان صغیرہ کہا جاتا ہے اور بڑے گناہ جنہیں گناہان کبیرہ کہا جاتا ہے۔ قرآن شریف میں بہت تاکید کے ساتھ کچھ گناہوں سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے:
کسی چیز کو اللہ کا شریک قرار نہ دو۔
کفر نہ کرو۔
قتل نہ کرو۔
زنا کے قریب نہ جاؤ۔
چوری نہ کرو۔
علم کے بغیر کوئی عمل نہ کرو۔
فضول خرچی نہ کرو۔
تبذیر نہ کرو۔ یعنی مال کو ایسی جگہ خرچ نہ کرو جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔
جوا اور شراب ناپاک شیطانی اعمال ہیں ان سے اجتناب کرو۔
یتیموں کے مال نہ کھاؤ۔
یہ وہ گناہ ہیں جنہیں ہر مسلمان گناہ سمجھتا ہے، ان سے نفرت کرتا ہے، ان گناہوں کے انجام دینے والوں کو برا سمجھا جاتا ہے اور ان سے نفرت کی جاتی ہے۔ لیکن قرآن مجید میں ایک ایسے گناہ کا ذکر بھی بہت شدت کے ساتھ موجود ہے جسے مسلمان بدقسمتی سے گناہ ہی نہیں سمجھتے اور وہ ہے فرقہ واریت۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر بہت شدید تاکید کے ساتھ فرقہ واریت سے اجتناب کا حکم دیا ہے:
1۔ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (یعنی دین اسلام) کو مضبوطی سے پکڑلو اور فرقہ بندیوں میں نہ پڑو۔ (آل عمران :103)
2۔ اور ان لوگوں کی مانند نہ ہو جانا جو روشن نشانیوں کے آجانے کے بعد تفرقہ اور اختلاف کا شکار ہو گئے، اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ (آل عمران :105)
3۔ (اے رسول!) اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جن لوگوں نے اپنے دین کے فرقے بنا لیے اور گروہ گروہ ہوگئے آپ کسی بھی معاملہ میں ان میں سے نہیں ہیں (یعنی کسی بھی معاملے میں آپ کاان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے) (انعام :159)
4۔ اسی کی طرف رجوع کیے رہو اور اس (کی نافرمانی، اس کی ناراضگی اور اس کے عذاب) سے ڈرتے رہو اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جائو جنہوں نے اپنے دین کے فرقے بنا لیے اور گروہ گروہ ہوگئے اور ہر گروہ (اور ہر فرقہ) اسی چیز پرخوش ہے جو اس کے پاس ہے۔(روم: 31-32)
5- دین کو قائم کرو اور اس کے معاملے میں فرقوں میں تقسیم نہ ہو جاؤ۔ (شوریٰ:13)

ان سب آیات میں دین کو قائم کرنے اور فرقوں میں تقسیم ہونے سے منع کیا گیا ہے۔ مطلب بالکل واضح ھے کہ اگر دین قائم کرنا ہے، اگر اسلام نافذ کرنا ہے تو فرقوں میں نہیں پڑنا اور اگر فرقوں میں بٹ گئے تو پھر دین قائم نہیں ہو سکے گا۔ سورہ روم کی آیت میں تو دین میں تفرقہ پیدا کرنے والوں کو مشرک قرار دیا گیا ہے۔ فرقوں میں تقسیم ہو کر اسلام نافذ کرنے کی باتیں کرنے والے گویا اسلام نافذ کرنے کے خواہشمند مشرک۔۔۔ دوسرے گناہوں سے منع کرنے والی آیات کے لب و لہجہ کو دیکھیں اور فرقہ واریت سے منع کرنے والی آیات کے لب و لہجہ کو دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا کہ قرآن کی رو سے فرقہ واریت، شراب، زنا، جوئے اور دیگر گناہوں سے بڑا گناہ ہے۔

اب ایک لمحے کے لیے رک کر سوچیے کہ اگر کوئی شرابی آپ کے محلے میں رہتا ہو تو آپ کی نظر میں اس کی کتنی عزت ہوتی ہے، کوئی جواری، آپ کے محلے میں رہتا ہو تو اس کی کتنی عزت ہوتی ہے۔ اگر کوئی بدکار آپ کے محلے میں رہتا ہو تو اس کی کتنی عزت ہوتی ہے؟
ایک قدم آگے بڑھتے ہیں: اگر کوئی شخص شراب خانہ چلاتا ہو، جوئے کا اڈہ چلاتا ہو یا بدکاری کا اڈہ چلاتا ہو آپ کی نظر میں اس کی کتنی عزت ہوتی ہے۔
اب اس سوال پر غور کریں کہ آیا ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت جیسا گناہ کرنے والوں سے بھی ایسی ہی نفرت کی جاتی ہے؟ کیا آپ کسی شرابی، جواری یا زانی کو مسجد کا پیش نماز یا کسی دینی مدرسے کا استاد بنا سکتے ہیں؟ کیا کسی ایسے شخص کو جو شراب خانہ چلاتا ہو، جوئے اور بدکاری کا اڈہ چلاتا ہو مسجد کا پیش نماز یا دینی مدرسے کا استاد مقرر کر سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ تو پھر فرقہ واریت جیسے گناہ میں ملوث شخص سے اتنی نفرت کیوں نہیں کی جاتی جتنی شرابی، زانی اور جواری سے کی جاتی ہے۔اگر شراب خانہ چلانے والا قابل نفرت ہے اور مسجد کا پیش نماز نہیں بن سکتا، اگر جوا خانہ چلانے والا قابل نفرت ہے اور مسجد کا پیش نماز نہیں بن سکتا، اگر بدکاری کا اڈہ چلانے والا قابل نفرت ہے اور اس قابل نہیں ہے کہ مسجد کا پیش نماز بن سکے تو فرقہ واریت کے گناہ کا اڈہ چلانے والا شراب، جوئے اور بدکاری کے اڈے چلانے والوں سے زیادہ یا کم از کم ان کے برابر قابل نفرت کیوں نہیں ہے؟ فرقہ وارانہ مسجد اور مدرسہ یقینا شراب خانے، جوئے کے اڈے اور بدکاری کے اڈے سے زیادہ بری جگہ ہے۔ ہم اپنے معاشرے میں شراب خانہ نہیں کھلنے دینے، جوئے کا اڈا نہیں کھلنے دینے، بدکاری اور جسم فروشی کا اڈہ نہیں کھلنے دیتے… پھر فرقہ واریت کے اڈے یعنی فرقہ وارانہ مساجد اور مدارس کو کیوں برداشت کرتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں مدینہ میں کچھ لوگوں نے ایک مسجد بنائی جس کا مقصد مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرکے انہیں ضرر پہنچانا تھا۔ سورہ توبہ آیت 107 میں اس کا ذکر ان الفاظ میں ہے:
اور کچھ لوگوں نے ایک مسجد بنائی تاکہ مسلمانوں کو ضرر پہنچا سکیں اور ان میں تفرقہ پیدا کر سکیں، اے رسول! آپ اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے کبھی کھڑے نہ ہوں۔ اور پھر اللہ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسجد کو مسمار کروا دیا تھا۔ اگر چہ فرقہ واریت کی سنگینی کو ظاہر کرنے کے لیے مندرجہ بالا آیات میں سے ایک آیت ہی کافی ہے لیکن ان سب آیات کو اور ان کے لب و لہجہ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ واریت کا گناہ دوسرے سب گناہوں سے بڑا ہے۔ اس لیے کہ باقی گناہ کرنے والے افراد خود بھی جانتے ہیں اور مانتے بھی ہیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ گناہ ہے۔ لیکن فرقہ واریت کے گناہ میں ملوث افراد، خواہ مولوی صاحبان ہوں یا عام لوگ، فرقہ واریت کو گناہ تک نہیں سمجھے۔

سورہ انعام کی آیت 159 نے تو بات ہی ختم کردی۔ ہر مسلمان اپنے آپ کو عاشق رسول سمجھتا ہے، اپنے دل میں روضہ نبی پر جانے کی آرزو رکھتا ہے، قیامت کے دن حضور کی شفاعت اور ان کا قرب حاصل کرنے کی تمنا رکھتا ہے، لیکن سورہ انعام کی مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے بات ہی ختم کردی کہ: (اے رسول!) اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جن لوگوں نے اپنے دین کے فرقے بنا لیے اور گروہ گروہ ہوگئے آپ کسی بھی معاملہ میں ان میں سے نہیں ہیں (یعنی کسی بھی معاملے میں آپ کاان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے) مطلب بالکل واضح اور صاف ہے کہ جو لوگ فرقہ واریت کے گناہ سے آلودہ ہیں، رسول اللہ کا کسی چیز میں ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان کی نماز سے کوئی تعلق نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان کے روزے، حج اور عمرے سے کوئی تعلق نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان کے میلادوں سے کوئی تعلق نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان کی مجالس عزا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، کسی چیز میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کسی چیز میں ان سے تعلق نہیں ہے تو قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان سے کیا تعلق ہوگا؟
اب سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ فرقے تو بن چکے، ان کو ختم نہیں کیا جا سکتا، ان کو کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پھر راہ حل کیا ہے؟
جواب: یہ بات بالکل صحیح ہے کہ فرقوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا، فرقوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے تو ایک نیا
فرقہ بن جائے گا۔ لیکن ہم یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ فرقہ وارانہ نفرتوں کو ختم کرکے مسلمان فرقوں کے درمیان یگانگت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ہمارا جس بھی فرقے سے تعلق ہو اپنے آپ کو پہلے مسلمان سمجھیں اور دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو بھی مسلمان سمجھیں۔ مثلاً سنی مسلمان، شیعہ مسلمان، دیوبندی مسلمان، بریلوی مسلمان، اہل حدیث مسلمان۔ صرف یہی نہیں بلکہ مسلمان ہونے کو زیادہ اہمیت دیں۔ مثلاً اگر آپ سنی مسلمان ہیں تو سنی کی بجائے مسلمان ہونے کو زیادہ اہمیت دیں، سنی ہونے کو ثانوی حیثیت دیں، اگر آپ شیعہ مسلمان ہیں تو مسلمان ہونے کو زیادہ اہمیت دیں شیعہ ہونے کو ثانوی حیثیت دیں۔ شیعہ مسلمان اور سنی مسلمان دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تعلقات میں مسلمان ہونے کو بنیادی اہمیت دیں اور شیعہ یا سنی ہونے کو ثانوی حیثیت دیں۔ ایک دوسرے کی مساجد میں ایک دوسرے کے ساتھ نمازیں پڑھیں۔ فرقہ واریت کتنی بڑی لعنت ہے اس کا اندازہ یہاں سے کریں کہ شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور دیگر فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک سینما میں ایک ساتھ فلم دیکھ لیتے ہیں، ایک ریسٹورنٹ میں مل کر کھانا کھا لیتے ہیں، ایک تھیٹر میں ایک ساتھ بیٹھ کر ڈرامہ دیکھ لیتے ہیں لیکن ایک مسجد میں ایک صف میں کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتے۔

اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں فرقہ واریت کی لعنت سے نکلنا ہوگا، ورنہ اس دنیا میں فرقوں کے نام پر لڑ لڑ کر ہلاک ہو جائیں گے اور قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں منہ بھی نہیں لگائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں