امریکہ کا بیمار شخص (ساجد خان)

چار سال قبل جب امریکہ میں انتخابی مہم جاری تھی تب مسلمانوں کی اکثریت ہیلری کلنٹن کی حمایت کر رہی تھی جبکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا حامی تھا۔ اس معاملے پر بہت سے فورم پر میری بحث بھی ہوئی جبکہ ایک نومسلم جاپانی خاتون سے بحث گرما گرمی کی حد تک بڑھ گئی اور اس نے مجھے منافق قرار دے دیا بلکہ میرے خلاف باقاعدہ مہم بھی شروع کر دی۔ اس فورم پر موجود میرے دوستوں نے مجھ سے پوچھا کہ آخر تم کیوں ٹرمپ کی حمایت کرتے ہو جبکہ تم دیکھ رہے ہو کہ وہ شخص کتنا متعصب ہے اور مسلمانوں کا دشمن ہے۔

میں نے تب کہا کہ میں جانتا ہوں کہ ٹرمپ انتہا پسند شخص ہے لیکن میرا یہ بھی ماننا ہے کہ پوری دنیا بھی مل کر امریکہ کو تباہ نہیں کر سکتی۔
امریکہ کو اگر کوئی ملک تباہ کر سکتا ہے تو وہ خود امریکہ ہے۔ میرا ماننا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا متعصب، گھمنڈی اور نسل پرست انسان ہی امریکہ کو کمزور کر سکتا ہے جس کا ہم برسوں سے خواب دیکھتے آ رہے تھے۔ مجھے اس وقت اپنی بات پر زیادہ یقین نہیں تھا بس ایک چھوٹی سی خواہش تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ نے میرے مؤقف کو صحیح ثابت کر دیا ہے۔

آج امریکہ میں دو واضح دھڑے نظر آ رہے ہیں،ایک وہ جو امریکہ میں بسنے والے ہر انسان کو برابری کے حقوق دینا چاہتا ہے خواہ وہ مسلمان ہو یا سیاہ فام ہو،ان کے نزدیک ہر انسان برابر ہے۔ دوسری طرف سفید فام نسل پرست ہیں جو خود کو بالاتر سمجھتے ہیں،جن کا ماننا ہے کہ امریکہ میں بسنے کا حق صرف سفید فام افراد کو ہے۔ یہ تقسیم ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت میں بدترین نفرت بن کر ابھری ہے اور سفید فام نسل پرست کی سرکاری طور پر حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم سے ہی سفید فام نسل پرست کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے مسلمانوں اور سیاہ فام شہریوں کے خلاف زہر اگلنے کا آغاز کئے رکھا۔ جس سے امریکہ میں دوسری اقوام میں احساس محرومی پیدا ہونا فطری عمل تھا۔

دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں نے بھی امریکہ کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے جبکہ یورپی یونین جیسا قابل اعتماد ساتھی بھی دور ہوتا چلا گیا جبکہ عالمی رہنما اکثر و بیشتر ڈونلڈ ٹرمپ کا مذاق اڑاتے نظر آئے۔ اسی طرح امریکہ کی بیجا مداخلت اور طاقت کے استعمال نے دشمن ممالک میں بھی کھل کر سامنے آنے کا حوصلہ پیدا کیا ہے۔

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی عالمی شہرت یافتہ شخصیت تھے، ایسا نہیں تھا کہ ماضی کے امریکی صدور کے زمانے میں قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کے مواقع میسر نہیں ہوئے ہوں گے لیکن وہ بخوبی جانتے تھے کہ دشمن پر وار کرنے سے زیادہ خوف پیدا رکھنا فائدہ مند ہوتا ہے شاید اس لئے امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں اجارہ داری قائم تھی اور یہی وجہ تھی کہ عراق میں امریکی فوجی اڈے کافی حد تک محفوظ تھے کیونکہ امریکہ نے کبھی کھل کر سامنے آنے کی غلطی نہیں کی تھی مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے پالیسی بدلتے ہوئے جارحانہ انداز اپنایا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عراق میں امریکی فوج غیر محفوظ ہوتی چلی گئی اور پھر امریکہ کو مجبوراً عراق سے فوج نکالنے پر غور کرنا پڑا۔

اسی طرح امریکہ کی لاطینی امریکی ممالک سے دہائیوں سے دشمنی چل رہی تھی اور امریکہ کو جب بھی موقع ملتا،وہ حکومت ختم کرنے کی کوشش کرتا اور یہی امریکہ کا اصل خوف تھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاملے میں بھی غلط پالیسی اپناتے ہوئے وینیزویلا کی حکومت کے خلاف کھل کر دشمنی دکھائی،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کا خوف کم ہوتا چلا گیا۔ وہ امریکہ جو خلیج فارس میں اپنے بنائے قانون نافذ کرتا تھا اور ان قوانین کے خلاف جانے کی کسی کو بھی جرآت نہیں ہوتی تھی،آج امریکہ کی سخت دھمکیوں کے باوجود خلیج فارس سے بحری جہاز تیل لے کر چلتے ہیں اور امریکہ کے پڑوس میں امریکی بحریہ کی موجودگی کے باوجود وینزویلا پہنچ جاتے ہیں۔

امریکہ بلاشبہ دہائیوں سے سپر پاور ہے مگر اس نے طاقت استعمال کرنے سے زیادہ خوف برقرار رکھ کر دنیا پر راج قائم رکھے رکھا مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیوقوفانہ پالیسیوں نے اس خوف کو کافی حد تک کم کر دیا ہے اور یہیں سے امریکہ کے کمزور ہونے کا آغاز ہوتا چلا گیا۔

آج مشرق وسطیٰ میں روس زیادہ طاقتور اور بااثر نظر آ رہا ہے،یہاں تک کہ عرب حکمران بھی دونوں ممالک سے تعلقات رکھنے کی کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک ناقابل اعتبار امریکی صدر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ امریکہ جس طرح بیرونی سطح پر کمزور ہوا ہے،اسی طرح اندرونی طور پر بھی کمزور ہوا ہے۔

امریکی عوام ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک انتہا پسند سفید فام شخص سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے امریکہ میں گزشتہ تین سال میں حالات نہایت تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں۔ سفید فام نسل پرست طاقتور ہوتے نظر آئے اور دوسری قوموں کے خلاف نفرت آمیز واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اس ہفتے جس بے دردی اور دیدہ دلیری سے ایک سیاہ فام شہری کی زندگی ختم کی گئی۔
اس کے خلاف پورے امریکہ میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو چکے ہیں جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ مظاہروں میں شدت آتی جا رہی ہے جبکہ امریکی عوام اس معاملے کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔

دوسری طرف پولیس میں بھی تفریق ہوتی نظر آ رہی ہے،جس کی وجہ سے بہت سے مقامات پر پولیس اہلکاروں نے مظاہرین کے سامنے جھک کر ہلاک ہونے والے سیاہ فام جارج کو خراج عقیدت پیش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے حالات کنٹرول کرنے کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کو نیشنل گارڈز طلب کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے جبکہ مشہور اخبار Newyork Post نے دعویٰ کیا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ محفوظ بنکر میں منتقل ہو گیا ہے۔

جس کے بعد امریکی عوام کی صدر پر تنقید میں مزید اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے کہ امریکہ جل رہا ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی جان کی فکر ستا رہی ہے۔
کوئی بھی ریاست اندرونی طور پر اس وقت کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے،جب عوام کا ریاستی اداروں سے اعتماد ختم ہو جائے اور یہی کچھ امریکہ میں ہوتا نظر آیا ہے۔ یک پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام شہری کا قتل بلاشبہ قابل مذمت عمل ہے لیکن اگر عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد برقرار ہوتا تو شاید حالات اس نہج تک نا پہنچتے۔

آج امریکی میڈیا ایک بار پھر سول وار کے خدشات کا اظہار کر رہا ہے اور یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ گزشتہ دو سالوں سے امریکی میڈیا مسلسل اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہا تھا کہ امریکہ سول وار کی طرف بڑھ رہا تھا اور آج اس خدشہ کو جارج فلائڈ کے قتل نے سچ ثابت کر دیا ہے۔

یہ ممکن ہے کہ ریاست ان حالات پر قابو پا لے لیکن جو قوم میں تقسیم ہو چکی ہے یا جو نفرت پیدا ہو چکی ہے وہ ختم نہیں ہو پائے گی اور ہر وقت دوبارہ حالات خراب ہونے کے امکانات رہیں گے۔
امریکہ آہستہ آہستہ سویت یونین کے حالات کی طرف بڑھ رہا ہے اور ان حالات میں دنیا خاموشی سے امریکہ کو ٹوٹتا دیکھتی رہے گی کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے دوست کے بجائے صرف دشمن بناۓ ہیں۔

آپ اگر مارچ اور اپریل کی خبروں پر توجہ دیں تو امریکی میڈیا کے مطابق امریکی عوام نے ریکارڈ اسلحہ خریدا ہے کیونکہ حالات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ جلد ہی امریکہ میں سول وار کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں لہذا ہر شخص اپنی حفاظت کے لئے خود انتظامات کرتا نظر آیا۔ یہ بد اعتمادی کسی بھی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔

آج کا امریکہ بارود کا ڈھیر بن چکا ہے،جسے کبھی بھی کوئی چنگاری جلا سکتی ہے۔ میں یہ بالکل بھی نہیں چاہتا کہ امریکہ تباہ ہو جائے البتہ اتنا کمزور ضرور ہو جائے کہ دوسروں کے وطن کو تباہ کرنے کی طاقت سلب ہو جائے کیونکہ ہم ماضی میں سویت یونین کو ٹوٹتا اور امریکہ کو واحد سپر پاور بنتے دیکھ چکے ہیں اور اس واحد سپر پاور کی پھیلائی تباہی کے بھی چشم دید گواہ ہیں۔

امریکہ اگر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا تو پھر چین واحد سپر پاور کے طور پر سامنے آئے گا اور دنیا ایک بار پھر واحد سپر پاور کی ضد اور لالچ کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں