پشتون تحفظ موومنٹ کا عملی سیاست میں قدم…! (ساجد خان)

پشتون تحفظ موومنٹ نے بالآخر پارلیمانی سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی ٹی ایم کی تاریخ دیکھی جائے تو زیادہ پرانی نہیں ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ تنظیم حادثاتی طور پر وجود میں آئی تو بھی غلط نہیں ہو گا لیکن اس تنظیم کو مختصر عرصے میں ہی حیران کن طور پر پشتون آبادی میں بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔

اب اس تنظیم کے جہاں منفی پہلو سامنے آئے کہ وہ ریاستی اداروں پر کھل کر اور بعض اوقات بے جا تنقید کرنے کو اپنا حق سمجھتی ہے وہیں مثبت پہلو بھی نظر آ رہے ہیں کہ گزشتہ چار دہائیوں سے پشتون قوم میں جو انتہا پسندی سرایت کر گئی تھی،وہ کم ہوتی نظر آ رہی ہے۔

یہاں تک کہ ضیاء الحق دور میں جو شیعہ سنی نفرت کو فروغ دیا گیا،اس کو ختم کرنے کے لئے بھی اس تنظیم کے رہنما قابل تعریف اقدامات کرتے نظر آ رہے ہیں۔ جس کی ایک مثال پاراچنار میں زمین کے تنازعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کو پی ٹی ایم نے مسترد کرتے ہوئے مذاکرات کے ساتھ مسائل حل کرنے پر زور دیا اور یوں کئی دنوں سے جاری لڑائی گھنٹوں میں ختم ہو گئی۔

صرف یہی نہیں بلکہ منظور پشتین کا حال ہی میں جلسے سے خطاب کے دوران شیعہ سنی نفرت کو ضیاء الحق کی کارستانی قرار دیتے ہوئے اہل تشیع کو اپنا بھائی قرار دے کر نفرت ختم کرنے کی کوشش شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اب جبکہ پی ٹی ایم نے سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے تو میرے نزدیک یہ انتہائی اچھا فیصلہ ہے کیونکہ دنیا میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جس قوم نے بھی ملکی سیاست سے کنارہ کشی کئے رکھی،اس کی کوئی اہمیت نہیں رہتی بلکہ اسے گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا ہے۔
نائجیریا میں اہل تشیع کی آبادی کم از کم تین کروڑ ہے لیکن اس کے باوجود جب بھی حکومت چاہتی ہے، معمولی بات پر فوج کشی کر کے سینکڑوں اہل تشیع کا قتل عام کر دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ نائجیریا کے شیعہ رہنما شیخ ابرہیم زکزکی سیاست میں حصہ لینے کو جائز نہیں سمجھتے اور اسی غلطی کی وجہ سے صرف ایک سال میں اپنے چھ کڑیل جوان مروا بیٹھے ہیں جبکہ خود قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔

دوسری طرف حزب اللہ مسلح تنظیم ہے۔ امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے۔ تمام عرب حکمران ان کے خلاف ہیں، اسرائیل بدترین دشمن ہے مگر کبھی بھی لبنانی حکومت یا فوج کو اس تنظیم کے خلاف آپریشن کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ حزب اللہ کی قومی سیاست میں نمائندگی ہے، ان کی پارلیمنٹ میں آواز گونجتی ہے۔

وہ ملک کے فیصلوں میں شامل ہوتے ہیں۔
وہ ووٹ کے ذریعے وزیراعظم بناتے ہیں یا حکومت گراتے ہیں۔

اسی طرح حماس کا وجود بھی سیاست میں حصہ لینے کی وجہ سے قائم ہے ورنہ اس تنظیم کا کب کا خاتمہ کر کے اسرائیل کی ایک مشکل آسان کر دی گئی ہوتی۔
پاکستان میں پی ٹی ایم کو بیانات اور تقاریر سے جتنی پزیرائی مل سکتی تھی،وہ مل چکی۔ اس لئے پی ٹی ایم جمود کا شکار ہوتی نظر آ رہی تھی، جس کے پاس جلسے جلوس کے علاوہ کچھ عملی کام کرنے کو نہیں ہے۔

اب اگر کوئی عملی قدم نہ اٹھایا گیا تو پشتون اس سے بھی مایوس ہونا شروع ہو جائیں گے لہذا یہ نہایت ضروری ہے کہ پی ٹی ایم قومی سیاسی دھارے میں شامل ہو تاکہ ان کے جائز مطالبات کو مضبوط آواز مل سکے لیکن یہ فیصلہ اتنا آسان بھی نہیں ہے بلکہ پی ٹی ایم کا اصل امتحان اب شروع ہونے جا رہا ہے۔

اس سے قبل جماعت کے رہنما جو دل چاہتا تھا، جلسوں میں تقریر کر دیا کرتے تھے مگر اب پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑیں گے لیکن اب ایک ایک لفظ کا قوم کو جواب دہ ہونا پڑے گا کیونکہ اب حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے۔ اس اعلان سے قبل تنظیم سے کسی جماعت کو سیاسی طور پر خطرہ نہیں تھا، اس لئے بہت سی سیاسی جماعتیں اعلانیہ طور پر پی ٹی ایم کے جائز مطالبات کی حمایت کرتی نظر آتی تھیں۔ جن میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سرفہرست ہیں جبکہ چند دوسری جماعتیں اگر حمایت نہیں کرتی تھیں تو مخالفت بھی نہیں کر رہی تھیں۔ اب دوسری سیاسی جماعتیں پشتون علاقوں میں پی ٹی ایم کے مدمقابل ہوں گی اور وہ پی ٹی ایم کی غلطیوں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ سب جماعتیں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش بھی کریں گی، جس سے پی ٹی ایم سے تصادم ہو گا۔ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ ان حالات میں پی ٹی ایم کس طرح اپنی بقاء اور اثرورسوخ کو قائم رکھ سکتی ہے۔

پاکستان میں بہت سی ایسی سیاسی جماعتوں کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ وہ اقتدار سے باہر بیٹھ کر نہایت خوبصورت باتیں کرتی ہیں،قوم کو سہانے خواب دکھا کر ووٹ حاصل کئے اور جوں ہی اقتدار نصیب ہوا،ماضی کی سب باتیں بھول کر عوام کے لئے گزشتہ حکمرانوں سے بھی زیادہ بدترین حالات بنا دیئے گئے۔
اس کی ایک مثال پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان ہیں جو اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ہر غلط عمل پر تنقید کرتے نظر آتے تھے مگر اقتدار ملتے ہی اسی راہ پر چل پڑے جن حکمرانوں سے تنگ آ کر عوام نے ان پر بھروسہ کیا تھا۔ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کا اصل امتحان اب شروع ہونے والا ہے کہ وہ عملی سیاست میں کس قدر اپنے مطالبات پر قائم رہتے ہیں اور جس علاقائی پسماندگی پر اعتراض کرتے تھے،اسے اقتدار میں آ کر کس قدر ختم کر سکتے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاست ان کے فیصلے کو کس حد تک قبول کرتی ہے کیونکہ ریاستی ادارے مکمل طور پر اس لسانی تنظیم کو قبول کرتے نظر نہیں آتے۔ میرے خیال سے ریاستی اداروں کے لئے یہ اچھا موقع ہے کہ وہ اپنے ناراض بھائیوں کو خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہیں کیونکہ یہ روٹھوں کو منانے کا شاید آخری موقع ہو گا اور اگر یہ موقع بھی گنوا دیا گیا تو پھر حالات مزید بگڑنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں