بیروت بنتا پنجاب اور دوستانہ سازش…! (شبیر حسین طوری)

پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے فرقہ واریت کو ریاستی سرپرستی میں فروغ دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جس کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور میں پنجاب کے شہر جھنگ سے کیا گیا۔ کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ تیار ہوئی اور قتل و غارتگری شروع ہو گئی۔ پنجاب میں کیونکہ مذہبی ہم آہنگی کی جڑیں کافی مضبوط تھیں، اس لئے یہ سلسلہ دوسرے شہروں میں نا پھیل سکا بلکہ جھنگ میں بھی جلد ہی یہ کوشش اپنی موت آپ مر گئی۔

پنجاب کے دوسرے اضلاع میں بھی وقتاً فوقتاً ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہا مگر اس نفرت کو عوامی پزیرائی حاصل نا ہو سکی اور یوں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی محدود ہو کر رہ گئے لیکن یہ سلسلہ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں پھیل گیا۔ کراچی، ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ اور پاراچنار اس کی بدترین مثالیں ہیں۔

بسوں کو روک کر شناخت کے بعد قتل کیا گیا۔ اہل تشیع کی مساجد اور جلوس و امام بارگاہوں میں متعدد خودکش حملے اور بم دھماکے کئے گئے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا بدترین سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق شیعہ ٹارگٹ کلنگ میں اب تک بیس ہزار سے 25 ہزار پاکستانی اہل تشیع جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ ریاست نے یا تو ان تنظیموں کی سرپرستی کئے رکھی یا ان کے جرائم پر آنکھیں بند کئے رکھیں۔

گزشتہ چند برسوں سے فرقہ واریت میں کافی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے اور اس کی ایک وجہ دہشت گردوں کے خلاف مسلسل آپریشن تھے لیکن موجودہ حکومت آتے ہی پاکستان ایک بار پھر اسی کی دہائی کی طرف گامزن ہوتا نظر آ رہا ہے۔ تب بھی فرقہ وارانہ فسادات کے لئے پنجاب کو منتخب کیا گیا تھا اور تکفیری گروہ مکمل ریاستی سرپرستی میں مخالف مسلک کے خلاف پروپیگنڈہ اور قتل و غارتگری کرتے نظر آ رہے تھے، آج بھی وہی حالات پیدا کئے جا رہے ہیں۔

نفرت اور پروپیگنڈہ کی شروعات تو اس وقت ہوئی جب کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے سربراہ اعظم طارق کے بیٹے معاویہ اعظم طارق کو اسلامی نصاب و تاریخ کے جائزے اور ترتیب کیلئے قائم کی گئی کمیٹی کا رکن نامزد کر دیا گیا۔ معاویہ اعظم طارق حکومتی جماعت کا ممبر نہیں تھا مگر اس متنازعہ ترین شخص کو اس حساس موضوع پر بنائی گئی کمیٹی کا ممبر بنانے کا مقصد سوائے ناصبیت کو تقویت پہنچانے کے اور کچھ نہیں تھا۔

اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا، کبھی جھوٹی اور پرانی خبر پر رونا پیٹنا شروع کر دیا جاتا کہ شام میں شیعہ ملیشیا نے حضرت عمر بن عبد العزیزؓ کی قبر کو مسمار کر دیا حالانکہ جانتے تھے کہ اہل تشیع قبور کی بے حرمتی نہیں کرتے بلکہ یہ پروپیگنڈہ کرنے والوں کا اپنا عقیدہ ہے تبھی شام میں انبیاء کرام کے مزارات تک کو بم دھماکوں سے اڑا دیا گیا۔

سعودی عرب میں جنت البقیع میں ہزاروں اہلبیت علیہ السّلام اور اصحاب کرامؓ کی قبور کو مسمار کیا گیا۔ پاکستان میں مزارات پر خودکش حملے کئے گئے۔ جوں ہی وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نے شامی حکومت سے رابطہ کر کے وضاحت دی کہ یہ تصاویر پرانی ہیں جب اس علاقے پر وہابی دہشت گردوں کا قبضہ تھا اور انہوں نے قبر کو مسمار کیا، جس کے بعد شامی حکومت نے دوبارہ تعمیر و آرائش کر دی تھی تب طاہر اشرفی، اوریا مقبول جان اور مفتی منیب جیسے تکفیری ذہنیت رکھنے والوں نے نا ہی جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے پر معذرت کی اور نا ہی وضاحت کی کہ اس قبر کو شیعہ ملیشیا نے نہیں بلکہ وہابی دہشت گردوں داعش نے مسمار کیا تھا۔

اس کے بعد پنجاب اسمبلی میں معاویہ اعظم طارق کی قیادت میں تحفظ بنیاد اسلام بل نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، جس میں چوہدری پرویز الہیٰ بھی ملوث تھے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ نیب کی انکوائری میں ان کا خاندان دھر لیا جائے گا لہذا اس نے بھی سابق جج شوکت صدیقی کی طرح اپنی کرپشن کے خلاف کارروائی پر اسلام کا لبادہ اوڑھنے کی کوشش کی ہے اور یہ بل سوائے پنجاب میں نفرت پھیلانے کے کچھ نہیں تھا ورنہ سب مطالبات پہلے سے ہی قانون کا حصہ تھے سوائے اس کے کہ اسلامی کتب کی نشر و اشاعت پر ناصبیت کو کنٹرول حاصل ہو جائے۔

محرم الحرام سے چند دن قبل ہی خبر آئی کہ تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی جماعت الاحرار اور حزب الاحرار ایک دفعہ پھر متحد ہو گئی ہیں، جس سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ پاکستان خصوصاً پنجاب میں اہل تشیع کے قتل عام میں دوبارہ تیزی لانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں کیونکہ لشکر جھنگوی کا زیادہ اثر و رسوخ پنجاب میں ہے اور وہ جتنی بھی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں، وہ خالصتاً فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہوتے ہیں اور یوں محرم الحرام شروع ہوتے ہی ناصبیت سوشل میڈیا پر متحرک ہو گئی اور آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملک میں خانہ جنگی کی وہ صورتحال بنتی نظر آ رہی ہے جو شاید لبنان کے شہر بیروت کی خانہ جنگی کی طرح خوفناک ہو۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب کس کی ایما پر کیا جا رہا ہے اور اس کا فائدہ کس کو ہو گا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ چند ہفتے قبل وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کشمیر کے حوالے سے عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کا پاکستانی مؤقف کا ساتھ نا دینے پر انتہائی سخت اور واضح تنقید کی۔ جس کے بعد سعودی حکومت نے پاکستان سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا، حکومت نے طاہر اشرفی کو معاملات حل کرنے کے لئے روانہ کیا اور اس کے بعد آرمی چیف قمر باجوہ بھی وفد کی صورت میں ریاض پہنچے مگر انہیں سعودی بادشاہ شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان نے ملاقات کا وقت دینے سے ہی صاف انکار کر دیا۔

شاہ محمود قریشی اتنے بیوقوف سیاست دان نہیں ہیں کہ وہ اپنے بل بوتے پر اتنا سخت بیان جاری کر دیں اور پھر اپنے مؤقف پر قائم رہنے کے باوجود اپنے عہدے پر بھی جمے رہیں۔ سب حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بالکل بھی غلط نہیں ہو گا کہ شاہ محمود قریشی کو حکومت اور فوج کی مکمل آشیرباد حاصل تھی اور شاہ محمود قریشی نے الفاظ ضرور ادا کئے مگر وہ مؤقف ریاستی بیانیہ تھا۔

آخر پاکستان میں اچانک صورتحال کیوں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ آپ اگر عالمی سیاست پر نظر ڈالیں تو آپ کو ایک دفعہ پھر ماضی کی طرح دو بلاک بنتے نظر آ رہے ہیں، جن کی سربراہی امریکہ اور چین کرتے نظر آ رہے ہیں اور اب حالات کشیدگی سے بڑھ کر سرد جنگ کی طرف جا رہے ہیں۔ دونوں فریقین اب اپنے اپنے بلاک کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ دوسرے ممالک بھی اپنے اپنے بلاک کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں۔

امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ میں پاکستان امریکی بلاک میں تھا اور اس بلاک میں پاکستان کی حیثیت نہایت اہم تھی مگر افسوس کہ پاکستان نے ان حالات میں جتنا فائدہ امریکہ کو پہنچایا، اتنا ہی نقصان خود کو پہنچایا۔ اب پاکستان پھر سے وہی غلطی نہیں دہرانا چاہتا، اس لئے وہ اس بار اپنے پڑوسی ملک چین کے بلاک میں رہنا چاہتا ہے کیونکہ اس سے پاکستان کو جہاں معاشی فائدہ پہنچ سکتا ہے وہیں مخالف بلاک میں شامل ہونے سے ناقابل تلافی نقصان کا بھی اندیشہ ہے، اس لئے اس بار اسٹیبلیشمنٹ کوئی بھی رسک لینے کو تیار نہیں ہے۔

اتفاق سے اس سرد جنگ میں بھی پاکستان کی حیثیت نہایت اہم ہے بس فرق یہ ہے کہ ماضی میں امریکہ کے دشمن سوویت یونین کو ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں لانے کے لئے جال بچھایا گیا جبکہ اب چین پہلے سے ہی ہمارا پڑوسی ہے، اس لئے امریکہ کی اب بھی شدید خواہش ہے کہ پاکستان اس سرد جنگ میں امریکی بلاک میں ہو تاکہ اس بار بھی دشمن کے خلاف جنگ پاکستان میں بیٹھ کر لڑی جائے۔

دوسری طرف سعودی عرب مسلم امہ خصوصاً مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا حمایتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کے زیر اثر تمام ممالک امریکی بلاک میں شامل ہوں جبکہ پاکستان کشمیر کے معاملے پر عرب حکمرانوں سے قدرے نالاں نظر آتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے ہندوستان کا ساتھ دیا۔

پاکستان نے اس سے قبل بھی ترکی، ایران اور ملائیشیا کی طرف سے نیا اسلامی بلاک بنانے کی کوشش میں حصہ ڈالنے کی کوشش کی مگر پھر سعودی عرب کے دباؤ پر قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور ہو گیا مگر کوششیں تب سے ہی جاری ہیں، جس میں اب تیزی آتی نظر آ رہی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا عہدے پر برقرار رہنا ثابت کرتا ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب کو اہمیت دینا کم کر دی ہے اور وہ اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کے لئے یہ فیصلہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے کہ ایک غلام اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کرے اور اگر وہ کامیاب ہو گیا تو دوسروں کے لئے مثال بن جائے گا، اس کا ایک عملی نمونہ ہم انقلاب ایران کی صورت میں بھی دیکھ چکے ہیں اور عرب ممالک کے بادشاہوں کو تب بھی یہی خوف لاحق تھا لہذا پاکستان کو اندرونی طور پر مجبور کرنے کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جس پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔

جنرل باجوہ کے سعودی دورے کی ناکامی کے بعد سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے خصوصی طور پر لاہور میں جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف سے خصوصی ملاقات کی، جس کی حکومت سے نا ہی اجازت لی گئی اور نا ہی رپورٹ دی گئی۔ خفیہ ایجنسیوں کی اطلاعات کے مطابق سعودی عرب نے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے راحیل شریف کی دوبارہ خدمات حاصل کر لی ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر سعودی حکومت دباؤ ڈالنا چاہتی تھی یا کوئی پیغام دینا مقصود تھا تو براہ راست حکومتی نمائندے یا وزیراعظم سے ملاقات کی جاتی یا آرمی چیف سے ملاقات کی جاتی مگر یہ دباؤ دراصل بلیک میلنگ کی صورت میں ڈالا جانا ہے۔

آپ لاکھ انکار کریں مگر حقیقت یہی ہے کہ فوج میں باقاعدہ طور پر واضح دھڑے بندی ہو چکی ہیں، جو کہ اعتدال پسند اور انتہا پسند کا اختلاف ہے، کچھ دفاعی تجزیہ کار ان دھڑوں کو گجر اور آرائیں برادری میں تقسیم بھی کہہ رہے ہیں۔ اعتدال پسند کی قیادت جنرل باجوہ کر رہے ہیں جو کہ گجر بھی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک سے ہر قسم کی انتہا پسندی کو ختم کیا جائے جبکہ انتہا پسند گروپ کی قیادت جنرل راحیل شریف کے ہاتھوں میں ہے جو کہ آرائیں ہیں، جن کی کوشش ہے کہ ملک میں انتہا پسندی کا وجود قائم رہے جسے وقتاً فوقتاً اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا جا سکے۔

گزشتہ سال نومبر میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی تعیناتی کے معاملے پر جو کشمکش نظر آئی، جس میں جنرل ندیم رضا کا تعینات ہونا اور جنرل سرفراز ستار کا عہدہ چھوڑنے سے انکار کرنا اور ان کی نظر بندی کی اطلاعات اسی معاملے کا حصہ تھیں، وہ اسی کشیدگی کا ہی حصہ تھا۔ جنرل راحیل شریف سے سعودی سفیر کی ملاقات کے بعد کالعدم تنظیموں کا اتحاد اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا پھیلاؤ اسی منصوبے کا حصہ ہے کیونکہ سعودی حکومت نے پاکستان کو مؤقف سے ہٹانے کے لئے قرض دیئے گئے اربوں ڈالر واپس مانگ کر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی مگر اس پر فورآ ہی چین سامنے آ گیا اور اس نے سعودی عرب کے قرض کی رقم ادا کر دی، جس پر سعودی عرب نے ادھار پر تیل فراہم کرنے کی سہولت بھی ختم کرنے کا اعلان کر دیا مگر پاکستان اپنے مؤقف پر قائم رہا۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس دن سے پاکستانی وفد سعودی عرب سے واپس لوٹا ہے، تب سے پاکستان میں سعودی سفیر سب سے زیادہ متحرک نظر آ رہے ہیں اور گزشتہ چند ہفتوں میں انہوں نے بہت سے اہلحدیث اور دیوبند علماء کرام سے نا صرف ملاقاتیں کی ہیں بلکہ باقاعدگی سے ان کے مدارس میں منعقد تقاریب میں شرکت کر رہے ہیں، آسان الفاظ میں کہا جائے تو وہ ان سب افراد اور گروہوں کہ جن کو گزشتہ کئی دہائیوں سے فنڈنگ کی صورت میں پال پوس رہے تھے، ان کو ریاست کے خلاف موبلائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ وہ پاکستان میں سعودی مفادات کا دفاع کر سکیں اور حکومت پر دباؤ ڈال کر مجبور کریں۔

اب صرف ایک ہی راستہ بچا تھا کہ ملک میں حالات اتنے خراب کر دیئے جائیں کہ بالآخر ریاست مجبور ہو کر سعودی مطالبہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔ اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لئے سب سے بہترین کمزوری فرقہ واریت ہے اور سب سے حساس علاقہ پنجاب ہے کہ جہاں پر چھوٹی سی خبر کو بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے بہ نسبت وزیرستان، پارا چنار یا ہزارہ ٹاؤن کے۔

اس لئے سعودی عرب اب اپنا آخری داؤ کھیلنے جا رہا ہے کیونکہ اس کی اجارہ داری کے لئے پاکستان کا ساتھ میں ہونا نہایت ضروری ہے۔

اس سازش میں فتح فوج کے اعتدال پسند گروپ کی ہوتی ہے یا انتہا پسند گروپ کی، ریاست اس معاملے کو کنٹرول کرنے میں کس حد تک کامیاب ہو گی اور سعودی دباؤ برداشت کر پائے گی یا نہیں، یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اس کا نقصان صرف پاکستان اور پاکستانی قوم کو ہے۔

جہاں سعودی عرب اپنا آخری داؤ کھیلنے جا رہا ہے وہیں پاکستان بھی اپنی آزادی کی آخری مگر اہم جنگ لڑنے جا رہا ہے اور اگر پاکستان اس جنگ میں کامیاب ہو گیا تو پاکستان دنیا کے نقشے پر واقعی میں ایک آزاد ملک کے طور پر سامنے آئے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں