نیا پاکستان کے گھوسٹ بچے۔۔۔! (ساجد خان)

قارئین! آپ کو یاد ہو گا کہ گزشتہ دور حکومت میں ہمارے موجودہ وزیراعظم صاحب نے ایک سو سے زائد دن کے دھرنے کے دوران روزانہ ایک ہی بات دہرائی کہ ہم نے خیبر پختونخواہ میں نظام تعلیم اتنا بہتر کر دیا ہے کہ ہزاروں بچے پرائیویٹ اسکول سے گورنمنٹ اسکول میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ ہزاروں ایسے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے بھی نظام لاۓ ہیں جو اسکولوں سے باہر تھے۔
اس دوران صوبائی وزیر تعلیم کا بھی فوٹو سیشن منظر عام پر آیا جو اپنی بیٹی کو پرائیویٹ اسکول سے سرکاری اسکول میں داخلہ کرواتے نظر آۓ۔

اس بارے میں مختلف سروے تنظیموں نے اپنی رپورٹنگ میں اس کارنامے کا ذکر کیا اور پاکستان بھر میں خیبر پختونخواہ کے نظام تعلیم کو سب سے بہتر قرار دیا جاتا رہا جبکہ چند میڈیا اینکرز بھی مختلف پروگرام کر کے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی گڈ گورنس کے گن گاتے رہے۔

اس طرح کی بہت سی الف لیلیٰ کی کہانیاں سن کر عوام کے دل میں ایک امید پیدا ہوئی کہ شاید اب ہماری قسمت بدل جائے گی۔
ہمارے بچے بہترین تعلیم حاصل کریں گے،اپنے ہی وطن میں روزگار میسر ہو گا اور یوں انہیں روزی روٹی کمانے کے لئے پردیس کی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑیں گی۔

خیبر پختونخواہ کے ان ہی انقلابی اقدامات کو بنیاد بنا کر پاکستان تحریک انصاف نے نا صرف انتخابی مہم شروع کی بلکہ الیکشن بھی جیتا مگر الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان نے خیبر پختونخواہ کی مثالی حکومت کی مثالیں دینا ہی چھوڑ دیں اور اب جوں جوں وقت گزر رہا ہے، اس مثالی صوبہ کی اصلیت سامنے آنا شروع ہو گئی ہے۔

گزشتہ دنوں محکمہ تعلیم کے حوالے سے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں گزشتہ حکومت نے 2014 میں اسکولوں سے باہر بچوں کو تعلیم دینے کا جو منصوبہ شروع کیا گیا تھا،اس میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوئی ہے۔

اس اسکیم کے تحت اکتالیس ہزار بچوں کو اسکولوں میں انرول کیا گیا تھا،وہ دعویٰ نا صرف غلط نکلا بلکہ فراڈ پر مبنی ہے کیونکہ اکتالیس ہزار بچوں میں سے اکیس ہزار بچوں کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے یعنی اسکولوں میں جن اکیس ہزار بچوں کا نام درج ہے وہ کبھی اسکول میں داخل ہی نہیں ہوئے۔

اسی طرح ضلع مانسہرہ میں نو اسکولوں میں سے چھ اسکول سرے سے موجود ہی نہیں ہیں جبکہ کل انیس صوبوں میں ستر اسکول جعلی ثابت ہوئے،جن کا وجود صرف کاغذات کی حد تک ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان بچوں کے لئے انرولمنٹ کی مد میں ماہانہ گیارہ سو روپے فی طالب علم حکومت سے جاری ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے یعنی ماہانہ سوا دو کروڑ روپے ان بچوں کے نام پر وصول کۓ جاتے تھے،جن کا وجود صرف نام تک ہی موجود تھا۔

اب اگر ہم ان اخراجات کے گزشتہ پانچ سال کا حساب کتاب دیکھیں تو یہ اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ عوام کا یہ پیسہ کس کی جیب میں جاتا تھا اور اس بد انتظامی کا ذمہ دار کون ہے،اس بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں ہے۔

نا ہی پاکستان تحریک انصاف نے اس پر نوٹس لیا اور نا ہی میڈیا نے اس کیس پر توجہ دی۔
اس سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ عمران خان کے وہ دعوے اور وہ سروے جو خیبر پختونخواہ کی انقلابی حکومت کے بارے میں کۓ گۓ،وہ سب ہی جھوٹے تھے اور اس سب کا مقصد فقط اقتدار حاصل کرنے کے لئے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا تھا۔

اہم بات یہ ہے کہ اس میگا کرپشن کا انکشاف کسی تحقیقاتی ادارے نے نہیں بلکہ اسی محکمہ کے ایم ڈی ذوالفقار احمد نے کیا ہے۔
عمران خان جنہوں نے وزیراعظم بننے کے فوری بعد اعلان کیا تھا کہ اگر کوئی بھی شہری کسی بھی ادارے کی کرپشن کو بینقاب کرے گا تو اسے اس لوٹے ہوئے قومی مال میں سے انعام کے طور پر حصہ دیا جائے گا مگر یہاں معاملہ بالکل ہی الٹا نکلا کیونکہ ذوالفقار احمد کو لوٹے ہوئے پیسے میں سے حصہ دینے کے بجائے معطل کر دیا شاید یہ آفر پاکستان تحریک انصاف کی اپنی کرپشن بینقاب کرنے پر نہیں تھی۔

وزیراعظم عمران خان کی عین ناک کے نیچے اتنا بڑا اسکینڈل سامنے آیا ہے مگر وہ اپنے مثالی صوبہ کی کرپشن کے بجائے پنجاب اور سندھ میں کرپشن تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف شاید کرپشن صرف اسے سمجھتی ہے جو مخالفین کریں کیونکہ خیبر پختونخواہ کے محکمہ تعلیم میں اس میگا اسکینڈل کے سامنے آنے کے باوجود عمران خان اور ان کا احتساب آنکھیں بند کۓ بیٹھا ہے حالانکہ انہیں چاہئے تھا کہ سب سے پہلا نوٹس ان کا ہوتا کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہی سخت احتساب کے قائل رہے ہیں۔

سپریم کورٹ میں اب چیف جسٹس ثاقب نثار تو رہے نہیں کہ ان سے ازخود نوٹس کی اپیل کی جائے اس لئے تحقیقاتی ادارے ہی اس معاملے پر جلد سے جلد تحقیقات کر کے حقائق عوام کے سامنے لائیں تاکہ عوام کو معلوم ہو کہ تبدیلی کے نام پر کس طرح انہیں بیوقوف بنایا جاتا رہا ہے اور ذمہ دار افراد کو بھی سخت سے سخت سزا دیں جو ملک کا پیسہ لوٹنے کے ساتھ ساتھ عوام کے جذبات سے بھی کھیلتے رہے۔


نوٹ:کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں ۔ ادارے  اور اس کی پالیسی کاان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں