استنبول (ویب ڈیسک) سعودی سفارتخانے میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ کا کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں آتا کہ اب تک اس گھناؤنے جرم کا کسی کو بھی نتیجہ نہیں بھگتنا پڑا ہے۔
ترکی خبر رساں ادارے ٹی آر ٹی کی رپورٹ کے مطابق امریکی ہاؤس آف ریپریزنٹیٹو کی خارجی امور پر بنی ذیلی کمیٹی کے سامنے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے سمجھ نہیں آتی کہ دنیا نے اس بارے میں اب تک کچھ نہیں کیا ہے’۔
صحافی کے قتل پر انہوں نے امریکی کانگریس سے نئی عالمی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان سے کہا تھا کہ یہ مسئلہ حل ہوجائے گا تاہم 7 سے 8 ماہ بعد بھی ہمیں کچھ نہیں نظر آرہا جس کی وجہ سے میں آج یہاں آئی ہوں۔
انہوں نے جذباتی لہجے میں کہا کہ ‘مجھے اب تک سمجھ نہیں آتی، مجھے اب بھی لگتا ہے کہ میں بیدار ہوں گی، کیا اس طرح امریکی اقدار کا بھی قتل نہیں ہوگیا ہے؟’۔
واضح رہے کہ امریکی شہری اور واشنگٹن پوسٹ کے نامہ نگار جمال خاشقجی کے استنبول میں قائم سفارتخانے میں داخل ہونے سے قبل ملاقات کرنے والی وہ آخری شخص ہیں۔
گزشتہ سال 2 اکتوبر کو جمال خاشقجی استنبول میں قائم سعودی سفارتخانے میں داخل ہوئے تھے تاہم وہ واپس نہیں آئے۔
جمال خاشقجی جو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ناقد رہے ہیں، کو سفارتخانے میں ہی سعودی ٹیم کی جانب سے قتل کردیا گیا تھا۔
ان کی منگیتر نے امریکا سے سعودی عرب میں سیاسی قیدیوں کی آزادی کے لیے پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیں آج بھی نہیں معلوم کہ انہیں کیوں قتل کیا گیا، ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے باقیات کہاں ہیں’۔
امریکی حکام نے جمال خاشقجی کے قتل کی ذمہ داری سعودی حکومت کے اعلیٰ عہدیداران پر عائد کی تھی۔
سی آئی اے کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ محمد بن سلمان نے صحافی کے قتل کے احکامات دیے تھے تاہم سعودی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ قتل کے واقعے میں ملوث نہیں ہیں۔
دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے سی آئی اے کی اس رپورٹ کو ‘قبل ازوقت’ قرار دیا تھا۔
جمال خاشقجی کی منگیتر کا کہنا تھا کہ وہ امریکا اس امید کے ساتھ آئی ہیں کہ ان کے منگیتر کے قتل پر رد عمل دینے میں واشنگٹن ان کی مدد کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی تھی تاہم وہ اس لیے نہیں آئی تھیں کیونکہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے رد عمل پر بھروسہ نہیں رکھتی تھیں۔
ذیلی کمیٹی کو انہوں نے بتایا کہ ‘ہمیں دو چیزوں میں سے ایک کو چننا ہوتا ہے، یا تو ہم ایسا سوچ لیں کہ جیسے کچھ نہیں ہوا یا ہم اپنے مفادات، عالمی مفادات اور سیاست کو ایک طرف رکھ کر بہتر زندگی کے لیے اپنے اقدار پر توجہ دیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ امریکا کے لیے امتحان ہے جس میں اسے کامیاب ہونا چاہیے’۔