واشنگٹن (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) امریکا کے 7 قانون سازوں نے ایک دستخط شدہ خط میں کہا ہے کہ ‘(کشمیر سے) جبری گمشدگیوں، بڑے پیمانے پر نظربندیاں، ریپ اور جنسی استحصال اور سیاسی، معاشی اور سماجی رہنماؤں کو اہداف بنا کر نظر بند کرنے کے الزامات کی موصول ہونے والی رپورٹس کرب ناک ہیں’۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں امریکی کانگریس اراکین اور سینیٹرز کا امریکی انتظامیہ کو لکھا گیا یہ تیسرا خط ہے، جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
ان خطوط میں سے ایک میں 4 اہم امریکی سینیٹرز نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر اور دیگر قابل ذکر تنازعات کے حل میں اپنا تعمیری کردار ادا کریں، ایسا کردار جس سے جنوبی ایشیا کی 2 جوہری طاقتوں کے درمیان ثالث کی ضرورت ہوگی۔
اس کے علاوہ امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کو لکھے گئے خط میں کانگریس خاتون جیاپال اور کانگریس رکن جیمس پی مک گورن نے مطالبہ کیا کہ بین الاقوامی میڈیا اور آزاد انسانی حقوق کے مبصرین کو فوری طور پر جموں اور کشمیر میں جانے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ خلاف ورزیوں کی رپورٹس کی تفتیش کر سکیں۔
رواں ہفتے درجنوں امریکی قانون سازوں نے کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی صورتحال پر روشنی ڈالی تھی، ان میں سے کچھ نے خبردار بھی کیا تھا کہ تنازع قابو سے باہر ہوسکتا ہے اور یہ جنوبی ایشیا کی 2 جوہری ہتھیاروں کی حامل ریاستوں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی کانگریس میں گرمیوں کی چھٹیاں تھیں جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے الحاق کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا تھا اور غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کرتے ہوئے وہاں کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا تھا۔
بھارت کے اس اقدام پر اب تک کئی قانون ساز مذمت کرچکے ہیں جبکہ کچھ نے امریکی انتظامیہ پر بھی زور دیا ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ سے اس کشیدگی کو ختم کرے۔تاہم ان مذمتوں میں اضافہ اس وقت ہوا جب امریکی قانون ساز خزاں سیشن کے لیے اس ہفتے واشنگٹن واپس پہنچے اور ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں درجنوں قانون سازوں نے اس معاملے کو اٹھایا جبکہ امور خارجہ پر ایک کانگریس کا پینل اس ماہ کے آخر میں کشمیر معاملے پر سماعت بھی کرے گا۔
اس کے علاوہ دیگر پینلز بھی اسی طرح کی سماعتیں کریں گے اور یہ امکان ہے کہ نئے سیشن کے آغاز سے ہی امور خارجہ پر کشمیر کا معاملہ ایک عام بحث بن کر آئے گا۔
واضح رہے اب تک جاری ہونے والے بیانات میں 3 اہم نکات جاری کیے گئے ہیں، پہلا اس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی سخت مذمت کی گئی تھی، دوسرا پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک جنگ سے بچنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا اور تیسرا کشیدگی کے کردار میں مزید متحرک امریکی کردار کا مطالبہ سامنے آیا تھا۔
اگرچہ بھارت کی جانب سے اس طرح کی ثالثی کی مخالفت کی گئی لیکن ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ کشمیر جیسا تنازہ بغیر بیرونی مدد کے حل نہیں ہو سکتا۔
خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
بھارتی آئین کی دفعہ 35 ‘اے’ کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔
بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بھارت نے 5 اگست کے اقدام سے کچھ گھنٹوں قبل ہی مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو لگا دیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی منقطع کردیے تھے جو ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال معطل ہیں۔