’پیمرا کو تجزیہ کار بھی سلیکٹڈ چاہئیے‘

اسلام آباد (ڈیلی اردو) الیکٹرانک میڈیا سے متعلق نگرانی پر مامور ادارہ پیمرا کی جانب سے نئے ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی معاملے پر مہمانان گرامی کو بلانے کیلئے ان کی اہلیت، غیر جانبدار تجزیہ اور معاملے بارے علم کو مدنظر رکھنا ہوگا۔

جاری کردہ ہدایت نامے کے جزڈی میں کہا گیا ہے کہ اینکرز کا کردار غیرجانبدار طریقے سے پروگرام کو چلانا ہے جس میں وہ اپنی رائے نہیں دے سکتے۔ اسلئے تمام اینکرز جو میزبانی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں، دوسروں کے پروگرام میں بطور تجزیہ کار یا ماہر شرکت نہیں کریں گے۔

تمام ٹی وی چینلوں کے نام جاری مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 26 اکتوبر کو نوازشریف کیس میں کہا تھا کہ کچھ اینکرپرسن ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کررہے ہیں اور پیمرا سے اس معاملے پر رپورٹ بھی طلب کی گئی ہے۔

پیمرا کے اس مراسلے پر بیشتر صحافیوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی، سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مختلف صحافیوں نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سرکار کے ملازم آئین کی خلاف ورزی کریں تو ٹھیک، ہم سیاست پر بات کریں تو برے۔

جیو نیوز کے اینکر پرسن اور سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کون چاہتا تھا کہ اینکرز ایک دوسرے کے شوز میں اپنا تجزیہ پیش نہ کیا کریں؟

سرکار کے ملازم آئین و قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاست میں خفیہ مداخلت کریں تو ٹھیک ہم سیاست پر تبصرہ کر دیں تو بہت برے ،یہ پالیسی کمزور اور بزدل لوگوں کی ہے جن کی عقل پر پردہ پڑ گیا ہے۔

اے آر وائی نیوز کے سینئر صحافی عارف حمید بھٹی نے لکھا کہ ساری عمر صحافت کرنے والے صحافیوں کو اب سرکاری افسروں سے صحافت سیکھنا ہو گی۔

اینکر پرسن عمران خان نے لکھا کہ یعنی اب پیمرا کا سرکاری آفیسر صحافیوں کو بتائے گا کہ صحافت کیسے کرنی ہے۔آزادیٔ اظہار رائے پر تبدیلی زندہ باد۔

ڈان نیوز کے سینئر صحافی مبشر زیدی نے لکھا کہ اب پیمرا کو تجزیہ کار بھی ’سلیکٹڈ‘ چاہئیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں