’بھارتی ایجنسی را اور افغان ایجنسی این ڈی ایس‘ مولانا فضل الرحمٰن پر حملہ کر سکتی ہیں: تھریٹ الرٹ جاری

اسلام آباد (ش ح ط/ توقیر حسین زیدی) محکمہ داخلہ نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پر خودکش حملے سے متعلق تھریٹ الرٹ جاری کردیا۔

ذرائع کے مطابق پروونشل انٹیلی جنس سینٹر ہوم ڈیپارٹمنٹ نے مولانا فضل الرحمٰن کی زندگی کو خطرے سے متعلق تھریٹ الرٹ جاری کیا ہے جس سے حکومت پنجاب کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے۔

محکمہ داخلہ پنجاب نے خبردار کیا ہے کہ آزادی مارچ کے دوران جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پر انڈیا اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں خودکش حملہ کروا سکتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں نے ٹارگٹ کلرز کو ہائر کر لیا ہے اور اس مقصد کے لیے مبینہ طور پر دس لاکھ ڈالر کی ادائیگی بھی کر دی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن پر حملے کے لیے چمن بارڈر کے راستے خودکش جیکٹیں بھی مبینہ حملہ آوروں تک پہنچا دی گئی ہیں۔ تھریٹ الرٹ سے متعلق علم ہونے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے تاہم کہا جارہا ہے کہ وہ اپنے جائے قیام کے حوالے سے تفصیلات کو خفیہ رکھیں گے۔

محکمہ داخلہ پنجاب نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پر قاتلانہ حملے سے متعلق تھریٹ الرٹ جاری کیا ہے۔ پروونشل انٹیلی جینس سینٹر ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن کی زندگی کو شدید خطرے سے متعلق جاری تھریٹ الرٹ سے حکومت پنجاب کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے۔

تھریٹ الرٹ کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن پر بھارتی خفیہ ایجنسی’را‘ اور افغان خفیہ ایجنسی ’این ڈی ایس‘ جان لیوا حملہ کرسکتی ہے۔ خفیہ اداروں کے مطابق مبینہ دہشت گرد جمیعت کے کارکنان کے روپ میں آزادی مارچ کا حصہ بننے کے بعد موقع دیکھ کر خودکش حملہ یا دھماکا کرسکتے ہیں۔

تھریٹ الرٹ میں بتایا گیا ہے کہ را اور این ڈی ایس نے ٹارگٹ کلرز سے بھی رابطہ کر لیا ہے جبکہ سینٹر ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اس حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کو بھی آگاہ کردیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ تھریٹ الرٹ سے متعلق علم ہونے کے بعد مولانا نے آزادی مارچ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم بعض ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن کی جائے وقوع کو خفیہ رکھا جا رہا ہے اور مولانا مختلف روٹ سے اسلام آباد پہنچیں گے۔

واضح رہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ خودکش حملے کیے جا چکے ہیں جن کے نتیجے میں مولانا فضل الرحمٰن کی جان تو بچ گئی لیکن انصار الاسلام سے تعلق رکھنے والے ان کے درجنوں محافظ شہید ہوچکے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن افغانستان میں طالبان حکومت کے مخالف رہے ہیں جس کی وجہ سے ماضی میں بھی حکومتِ پاکستان کی جانب سے جب بھی طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے کوئی کمیٹی بنائی گئی تو اس وقت طالبان کی جانب سے شرط رکھی جاتی تھی کہ مولانا فضل الرحمن اس کمیٹی کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اگرچہ مولانا فضل الرحمن اور طالبان کا فقہ اور مسلک ایک ہے لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے طالبان کے ساتھ کسی معاملے میں کبھی کوئی تعاون نہیں کیا بلکہ جب بھی طالبان نے مولانا سے تعاون کی درخواست کی تو مولانا نے ہو جائے گا کہہ کر معاملہ ٹال دیا۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت جمعیت علماء اسلام ف کا مخالف دھڑا جمعیت علماء اسلام س دراصل طالبان کا زبردست حامی ہے اور اس کے سابق سربراہ مرحوم مولانا سمیع الحق کو بابائے طالبان کا نام سے جانا جاتا تھا کیونکہ ان کے اکوڑہ خٹک نوشہرہ میں واقع مدرسہ حقانیہ میں طالبان کے بانی ملا عمر سمیت بڑے بڑے طالبان لیڈر زیر تعلیم رہے ہیں۔

خیال رہے کہ جے یو آئی (ف) کا آزادی مارچ جاری ہے اور قافلہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں پنجاب میں داخل ہوچکا ہے۔ آزادی مارچ کا قافلہ بروز اتوار کو کراچی سے روانہ ہوا تھا جہاں دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنما بھی موجود تھے، اس دوران مولانا اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے افتتاحی جلسے سے خطاب بھی کیا تھا۔

یاد رہے کہ آزادی مارچ کے شرکاء 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے جہاں معاہدے کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) ایچ 9 کے اتوار بازار کے قریب گراؤنڈ میں جلسہ کرے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں