توہین عدالت کیس: فردوس عاشق اعوان کو پیر تک جواب داخل کرانے کا حکم

اسلام آباد (ویب ڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ نےعدلیہ مخالف بیان دینے پر وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے انہیں ایک اور نوٹس جاری کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کے شوکازنوٹس کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

عدالت نے ججز پر تنقید کے حوالے سے معاون خصوصی کی معافی قبول کی تاہم کیس پر اثر انداز ہونے کے معاملے پر انہیں ایک اور نوٹس جاری کرتے ہوئےچار نومبر کو سماعت مقرر کرنے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کی ہدایت پر فردوس عاشق اعوان نے عدالت میں ہائیکورٹ کے رولز پڑھ کر سنائے کہ چھٹی کے روز بھی کیس سنا جاسکتا ہے،چیف جسٹس کی غیر موجودگی میں سنیئر جج فوری نوعیت کا کیس سن سکتے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے فردوس عاشق اعوان کو پیر تک تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو کریمنل توہین عدالت کا نیا نوٹس جاری کیا جا رہا ہے.عدالت کو مطمئن کریں کہ آپ نے جان بوجھ کر عدلیہ کی تضحیک اور زیر سماعت کیس پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔

اس کے علاوہ عدالت نے فردوس عاشق اعوان کو بار کے نمائندوں کے ساتھ ڈسٹرکٹ کورٹس کے دورے کا حکم بھی دیا۔

اس سے قبل عدالت طلبی پر ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان اپنے وکلا کے ہمراہ پیش ہوئیں،اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے معاون خصوصی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس اہم ذمہ داری ہے،آپ اس ملک کے وزیراعظم کی معاون خصوصی ہیں، آپ سے یہ توقع نہیں تھی۔معزز جج نے کہا کہ میں توقع کرتا ہوں جو کچھ آپ نے کہا وہ وزیراعظم نے آپ کو نہیں کہا،وزیراعظم ہمیشہ رولز اینڈ لا کی بات کرتے ہیں مگر آپ نے اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے زیرسماعت مقدمات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی،میرے بارے میں جو کہیں مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کے اپنی میڈیکل بورڈ نے کہا کہ نواز شریف کی حالت خراب ہے،کم سے کم کچھ کہنے سے پہلے اپنے وکلاسے پوچھ لیں،کبھی آپ نے دیکھا کہ ہم کس طرح زیر التوا کیسز کو نمٹا رہیں ہیں؟،بہتر ہے کہ آپ سیاست کو عدالتوں سے دور رکھیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم نے حلف لیا ہوا ہے، حکومت کی عزت کرتے ہیں لیکن پریس کانفرنس نہیں کرسکتے،ہمارے سول ججز کی عدالتیں دکانوں میں بنی ہوئی ہیں،کبھی انتظامیہ کو خیال نہیں آیا کہ عام سائلین کیلئے سہولیات پیدا کرنی ہیں،ہمارے سول ججز کیلئے ٹوائلٹس بھی موجود نہیں۔اس موقع پر فردوس عاشق اعوان نے عدالت کو بتایا کہ جی میں کچھ کہنا چاہتی ہوں، ایک منٹ دیں آپ کو جواب دیا جائے گا، عدالتی اجازت ملنے پر معاون خصوصی نے کہا کہ آپ کا بہت شکریہ کہ جن چیزوں سے لاعلم تھی وہ مجھے بتایا،میں آپ کی ذات کو جانتی ہوں، جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دئیے کہ اس بات کو چھوڑدیں۔

فردوس عاشق اعوان نے عدالت کو بتایا کہ وہ دانستہ طور پر عدالت کی توہین کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی،اگر میرے الفاظ کی وجہ سے عدالت کی توہین ہوئی ہے تو معافی مانگتی ہوں،عدالت معافی دے، آئندہ الفاظ کے چناؤ میں محتاط رہوں گی۔جس پر معزز جج نے کہا کہ آپ انتظار کریں، ہم فیصلہ جاری کرینگے،یہ عدالت آپ کو نوٹس نہیں کرنا چاہتی تھی،عدالتی فیصلوں پر لوگوں کو اعتماد ہے،جب کابینہ اس اعتماد کو توڑے گی تو نتیجہ اچھا نہیں ہوگا،آپ حکومت کی ترجمان ہیں، آپ کا ہر لفظ نپا تلا ہونا چاہیے،میں وزیراعظم کا معاون ہوتا تو اس طرح کی باتیں نہ کرتا۔

یاد رہے کہ تیس اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف پریس کانفرنس کرنے پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔

شوکاز نوٹس میں کہا گیا کہ فردوس عاشق اعوان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم کی دو ماہ کی سزا معطل کرنے کے فیصلے پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں