کررونا کا خوف: کویت میں اذان کے الفاظ تبدیل، ‘حی علی الصلاة‘ کی جگہ ‘الصلاة فی بیوتکم‘

کویت سٹی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں معاشرتی اور اقتصادی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور مسلم اکثریتی ممالک میں حکام کو وبا سے نمٹنے کے ليے حفظان صحت کی تجاویز کو مذہبی پیغامات سے ملا کر پیش کرنا پڑ رہا ہے۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق کررونا وائرس کی ہلاکت خیز وبا سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کی حکومتوں کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔ ایسی صورت حال میں مشرق وسطی میں مذہبی رہنماؤں اور حکومتی اداروں نے اس غیر یقینی وقت کے دوران صاحب عقیدہ لوگوں کی رہنمائی اور کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے ہیں۔

عراق میں گرینڈ آیت اللہ علی سیستانی نے کہا کہ ‘طبی ماہرین کی رائے پر عمل کرنا‘ مذہبی فریضہ ہے۔ ترکی کے مذہبی امور کے صدر علی ارباش نے وبا کی روک تھام کے لیے حکومتی مشوروں پر عمل کرانے کے لیے پیغمبر اسلام کی تعلیمات کا سہارا لیا۔

کویت میں اذان کے الفاظ بدلے گئے، جو کہ شاذ و نادر ہی دیکھا جاتا ہے، اور اذان میں ‘حی علی الصلاة‘ کی جگہ ‘الصلاة فی بیوتکم‘ کہہ کر لوگوں کو گھر ہی میں نماز ادا کرنے کی تلقین کی گئی۔

اگرچہ حکومتوں اور مذہبی رہنماؤں نے طریقہ کار مختلف اختیار کیا لیکن پیغام ایک ہی تھا، یعنی گھر میں رہیں، لوگوں سے نہ ملیں اور ہاتھ دھوتے رہیں۔

کیلیفورنیا کی یونیورسٹی میں دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر روز اسلان اس بارے میں کہتے ہیں، ”مسلمان دوسروں سے مختلف نہیں۔ دنيا بھر میں زیادہ تر مسلمان عملی ہیں اور وہ بھی دوسروں کی طرح گھروں میں رکے ہوئے ہیں۔‘‘

‘صفائی نصف ایمان ہے‘

کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات اور مذہبی پیغامات کے ادغام کی مثال متحدہ عرب امارات میں بھی دیکھی گئی۔ امارات میں مذہبی امور کی کونسل نے ایک فتوی جاری کیا جس میں کہا گیا کہ صحت عامہ کی ہدایات پر عمل کرنا فرض ہے۔

فتوے میں کہا گیا کہ ‘حکومتی اداروں کی جانب سے جاری کردہ ضوابط اور صحت عامہ کی ہدایات پر عمل کرنا اور بیماری کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات کرنا‘ معاشرے میں سب پر فرض ہے۔ لوگوں کو صابن کے ساتھ تواتر سے ہاتھ دھونے کی تلقین کرتے ہوئے کہا گیا کہ صفائی اسلام کا حصہ ہے۔

ماضی سے مثالیں

اکثریتی مسلم ممالک میں باجماعت نماز ادا کرنا اور خاص طور پر جمعے کی نماز مسجد میں ادا کرنے کے بارے میں لوگ زیادہ حساس ہیں۔ اس کی مثال گزشتہ روز پاکستان سمیت کچھ دیگر ممالک میں بھی دیکھی گئی، جہاں لوگ نماز جمعہ مسجد میں ادا کرنے کے لیے بضد تھے۔

تاہم ہنگامی صورت میں مسجدیں بند کرنے کی روایت پہلے سے موجود ہے اور موجودہ مذہبی رہنماؤں نے بھی انہی روایات کا سہارا لیا۔

پروفیسر اسلان کہتے ہیں، ”اس وقت بھی (وبا کی) صورت حال بہت سنجیدہ ہے اس لیے یہ دیکھا گیا کہ ماضی میں وبا پھیلے تو مسلم اسکالرز نے کیا کیا تھا۔‘‘

مسلمانوں کی تاریخ کے تناظر میں اور ماضی کی مذہبی شخصیات کے فیصلوں کی روشنی میں موجودہ فیصلوں کو دیکھنے سے زیادہ تر صاحب عقیدہ افراد کے لیے مسجد میں نماز نہ پڑھنے کا فیصلہ سمجھنا آسان ثابت ہوا۔

مستقبل کی تیاری

جمعہ تو گزر گیا اور زیادہ تر ممالک میں اکثریت نے نماز گھر ہی میں ادا کی، لیکن ابھی ایک اور امتحان باقی ہے۔ اگلے مہینے سے رمضان کا مہینہ شروع ہو رہا ہے اور ابھی سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس وقت وبا کی صورت حال کیا ہو گی۔

لیکن ابھی سے ایک ساتھ سحر اور افطار کیے جانے کے بارے میں گفتگو شروع ہو چکی ہے اور ایک ساتھ افطار کے لیے ویڈیو کال جیسے طریقے اختیار کرنے کی تجاویز بھی سامنے آنے لگی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں