افغانستان: کابل میں چلڈرن ہسپتال پر دہشت گردوں کا حملہ، خواتین اور کمسن بچوں سمیت 13 افراد ہلاک، 24 زخمی

کابل (ڈیلی اردو) افغانستان کے دارالحکومت کے چلڈرن سپتال میں دھماکے اور فائرنگ کے نتیجے میں کمسن بچوں اور خواتین سمیت 13 افراد ہلاک جبکہ 24 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔

افغان میڈیا کے مطابق دارالحکومت کابل کے ایک چلڈرن سپتال پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا، حملہ آور ہسپتال کے عقب میں واقع گیسٹ ہاؤس میں داخل ہونا چاہتے تھے تاہم ناکامی کی صورت میں بارودی مواد کو دھماکے سے اُڑا کر اندھا دھند فائرنگ کردی۔

https://twitter.com/mariamamini/status/1260141596944871425?s=19

حملہ آوروں کی فائرنگ سے 3 سیکورٹی فورسز، دو کمسن بچے اور 8 خواتین سمیت 13 افراد ہلاک اور 24 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔

غیرملکی خبررساں دارے اے ایف پی کے مطابق کابل کے علاقے دشت بارچی میں پولیس کی وردیوں میں ملبوس مسلح افراد نے ہسپتال پر حملہ کیا۔

حملے کے نتیجے میں ہسپتال میں موجود 2 کمسن بچوں، خواتین اور نرسز سمیت 13 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ واقعے میں بچوں سمیت 15 زخمی ہوئے ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے زیر انتظام چلنے والے اسپتال کو حملے میں نشانہ بنایا گیا ہے۔

حکام نے ابتدائی طور پر 13 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ حملے کے فوری بعد اسپتال کو سیکیورٹی اہلکاروں نے گھیرے میں لے لیا۔

افغان وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق دشت برچی کے سپتال سے کئی افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا تھا تاہم حملے میں کئی افراد زخمی ہوئے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ دشت برچی ہسپتال پر تین دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ حملہ آوروں نے پولیس کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں۔

ہسپتال میں موجود افراد کے حوالے سے حکام نے بتایا کہ کئی افراد ابھی ہسپتال میں لاپتہ ہیں تاہم کچھ ڈاکٹرز نے جان بچانے کے لیے اسپتال کے ساتھ والی عمارت میں چھلانگ لگا کر جان بچائی۔

برطانوی نشریاتی ادارے ‘بی بی سی’ کی رپورٹ کے مطابق ہسپتال سے بحفاظت نکلنے والے ایک ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں ڈاکٹرز سمیت عملے کے 140 افراد موجود تھے۔ جبکہ آپریشن میں تمام دہشت گرد مارے گئے۔

خیال رہے کہ ہسپتال کے زچہ و بچہ وارڈ کا انتظام ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم ‘ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز’ چلارہی ہے جس کے باعث کئی غیرملکی بھی وہاں کام کرتے ہیں۔

غیر ملکیوں نے ہسپتال کے پیچھے بنی عمارت میں رہائش اختیار کررکھی تھی۔

حکام کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے کارروائی شروع کرتے ہوئے پہلے دستی بم پھینکے اس کے بعد فائرنگ شروع کر دی۔

حملے کے بعد ہسپتال کی عمارت سے دھواں اٹھتے ہوئے دیکھا گیا۔

‘رائٹرز’ کے مطابق طالبان نے کہا ہے کہ وہ حملے میں ملوث نہیں ہیں تاہم کسی اور شدت پسند گروہ نے بھی حملے کی ذمہ داری فوری طور پر قبول نہیں کی۔

افغان وزارت صحت کے ترجمان وحید اللہ مایار نے بتایا کہ جس عمارت کو نشانہ بنایا گیا ہے یہ ایک سرکاری اسپتال ہے تاہم ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) اس کو چلاتی ہے۔ یہ اسپتال 100 بستروں پر مشتمل ہے۔

حملے کے حوالے وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے ابتدائی بیان میں بتایا ہے کہ سیکیورٹی ادارے حملہ آوروں کو کنٹرول کرنے کے لیے کارروائی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپتال سے 80 افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جا چکا ہے۔

کارروائی کے حوالے سے صحت کے نائب وزیر وحید مجروح نے کہا کہ حملے میں 24 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کو دیگر ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے اس حملے کے حوالے سے فوری طور پر کوئی بھی بیان جاری نہیں کیا۔ تاہم اس تنظیم کی ویب سائٹ پر درج معلومات کے مطابق وہ کابل کے اس ہسپتال میں ایک میٹرنٹی کلینک چلاتی ہے۔

خیال رہے کہ کابل کے نواح میں زیادہ ترغریب اور کم وسائل رکھنے والے لوگوں کی آبادیاں ہیں۔ جو اس ہسپتال سمیت دیگر قریبی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ جب کہ ان علاقوں میں ہزارہ برادری بھی بڑی تعداد میں آباد ہے۔ جن پر شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے حملے کیے جاتے رہے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں کابل میں ہونے والے اکثر بدترین حملوں کی ذمہ داری داعش قبول کرتی رہی ہے۔

ادھر کالعدم تنظیم تحریک طالبان افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ہسپتال پر حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے، اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ طالبان کا کابل ہسپتال پر حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں