آذربائیجان کیخلاف جنگ میں اب تک آرمینیا کے 729 فوجی ہلاک

باکو (ڈیلی اردو/بی بی سی) آذربائیجان کے خلاف جاری لڑائی میں آرمینیا کی طرف مرنے والے فوجیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

سوموار کے روز آرمینیائی فوج نے مرنے والوں کی فہرست میں مزید 19 فوجیوں کا نام شامل کیا۔ اس کے ساتھ ہی اس جنگ میں آرمینیا کی جانب سے مرنے والے فوجیوں کی تعداد 729 ہوگئی ہے۔

آرمینیا کی وزارت دفاع نے پہلے کہا تھا کہ ممکنہ طور پر یہ اعداد و شمار نامکمل ہوں کیونکہ مسلسل جاری جنگ میں مرنے والے افراد کے اعداد و شمار دیر سے موصول ہو رہے ہیں۔

جبکہ دوسری طرف آذربائیجان کسی قسم کے جان و مال کے نقصان کی کوئی تفصیلات نہیں دے رہا ہے۔

آذربائیجان کے صدر الہام علییف نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد یہ معلومات عام کردی جائیں گی۔

جبکہ آذربائیجان کے پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر نے سوموار کو کہا ہے کہ اغدام کے علاقے میں محاذ پر فائرنگ کے نتیجے میں چار افراد زخمی ہوگئے ہیں۔

ایران کا انتباہ

ایران نے کہا ہے کہ اگر قرہباخ کی طرف سے میزائل یا توپ کے گولے ایران کی سرزمین پر آتے ہیں تو وہ اس کا جواب دے گا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا: ‘ایران کی سرزمین پر اگر کوئی بھی حملہ ہوتا ہے خواہ وہ نادانستہ طور پر کیوں نہ ہو، تو ایران اس کا مناسب جواب دے گا۔’

خبررساں ادارے تاس نے ایرانی وزارت خارجہ کی پریس سروس کے حوالے سے یہ خبر دی ہے۔ گذشتہ ہفتے یہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ ملٹیپل لانچ راکٹ سسٹم سے کم از کم آٹھ میزائل داغے گئے تھے جو دریائے اراکیز کے ایرانی کنارے کھوڑا افرین علاقے میں گرے۔ اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

سنیچر کو آذربائیجان کی فوج نے اپنا جھنڈا اس ندی کے دوسرے کنارے پر نصب کر دیا تھا۔ قرہباخ میں محض تین ہفتوں کی لڑائی کے دوران متعدد درجن میزائلیں اور توپ کے گولے ایرانی سرحد کے پار گرے ہیں۔

ان تین ہفتوں میں ایرانی پریس اور سوشل میڈیا پر بہت ساری ویڈیوز اور تصاویر دیکھی گئیں جن میں ایران کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگ پہاڑیوں کے دوسری طرف جاری جنگ دیکھ رہے ہیں۔ آذربائیجان اور آرمینیا سے ملحق ایرانی علاقوں میں زیادہ تر آذربائیجانی نسل کے لوگ آباد ہیں۔

آذربائیجان کے صدر کا دعوی

آذربائیجان کے صدر الہام علییف نے دعوی کیا ہے کہ ان کی فوج نے جنوبی جبریل ضلع کے مزید 13 گاؤں پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔

سوموار کو صدر الہام علییف نے ٹویٹ کیا: ‘جبریل ضلعے کے سلتینلی، امیروارلی، حسنالی، علیکیخنالی، قملاق، حاصلی، گویارسنویسلی، نیازگولر، کیسال محمدعلی، شاہ ولی، حاسی اسماعیلی اور اساقلی گاؤں کو آزاد کرا لیا گیا ہے۔’

بلاگر حبیب منتظر نے ایک نقشہ شائع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ تمام دیہات ایران کی سرحد کے آس پاس ہیں۔

18 اکتوبر کو صدر نے ٹویٹ کیا کہ آذربائیجان کی فوج نے دریائے اراکیز پر خودآفرین پل پر اپنا پرچم لہرایا ہے جو سنہ 1990 کی دہائی سے آرمینیا کے قبضے میں تھا۔

متعدد افراد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر ویڈیو شیئر کی ہیں جن میں خودآفرین پل کے پاس ایران کے درجنوں آذربائیجانی لوگوں کو آذری فوجیوں کا استقبال کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

آذربائیجان کی لاشیں واپس کرنے کی دوبارہ پیشکش

آذربائیجان میں جنگی قیدی بنائے جانے والے یا گمشدہ افراد کے کمیشن نے آرمینیا، آذربائیجان سرحد کے شمالی حصے میں آرمینیا کے فوجیوں کی لاشوں کو ایک خصوصی راہداری کے ذریعے واپس کرنے کی اپنی تجویز کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے۔

خبررساں ایجنسی ازرتاز کے مطابق اس کمیشن کے عہدیداروں نے ریڈ کراس کے عہدیداروں سے ملاقات کی ہے اور ان سے باضابطہ طور پر اس تجویز سے آرمینیا کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

سنیچر کی رات اور اتوار کی درمیانی شب دونوں طرف سے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا جس کا بنیادی مقصد دونوں طرف سے جنگی قیدیوں اور لاشوں کا تبادلہ کرنا ہے۔

لیکن دونوں طرف سے آنے والی خبروں کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنگ بندی واقعتا شروع نہیں ہوئی ہے۔

آذربائیجان کے دو طیارے گرانے کا دعوی

آرمن پریس نیوز ایجنسی کے مطابق آرمینیا نواز ناگورنو قرہباخ فضائیہ نے آذربائیجان کے دو ڈرون طیارے مار گرانے کا دعوی کیا ہے۔ ایجنسی نے اس کا ذکر قرہباخ کی فوج کے حوالے سے کیا ہے۔

ایجنسی کے مطابق ’18 اکتوبر کو آذربایجان اپنے ڈرون طیاروں ذریعے قرہباخ کی فضائی حدود کی مسلسل خلاف ورزی کررہا تھا جبکہ 17 اکتوبر کو بارہ بجے سے ہی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کو نافذ کیا گیا تھا۔’

خبر رساں ادارے آرمن پریس نے قرہباخ فوج کے حوالے سے لکھا ہے کہ آذربائیجان کی فوج نے جنگ بندی کے نفاذ کے بعد بھی جنگ بندی کی خلاف ورزی جاری رکھی اور لڑائی والے شمالی علاقوں میں راکٹ سے حملے کیے جبکہ صبح کو جنوبی علاقوں میں میزائل سے حملے کیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں