افغانستان: کابل یونیورسٹی میں ایرانی کتاب میلے پر دہشت گردوں کا حملہ، 5 پروفیسر سمیت 50 افراد ہلاک، 60 زخمی

کابل (ڈیلی اردو) افغانستان کے دارالحکومت کابل کی یونیورسٹی میں ایرانی کتاب میلے پر دہشت گردوں کے ایک بڑے حملے میں ابتک 50 افراد ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہو گئے۔ جبکہ تین حملہ آور بھی مارے گئے ہیں۔

معروف افغان صحافی بلال سروری کے مطابق افغان پولیس نے تصدیق کی ہے کہ پیر کو کابل یونیورسٹی میں دہشت گردوں کے حملے میں طلبہ سمیت ابتک 5 پروفیسر سمیت 50 افراد ہلاک اور 60 زخمی ہو گئے ہیں جبکہ تین حملہ آور مارے گئے ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق دن ایک بج کر 30 منٹ پر تین حملہ آور یونیورسٹی میں داخل ہوئے جہاں اس وقت طلبا کی بڑی تعداد موجود تھی۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں کابل یونیورسٹی میں ایرانی کتب کے میلے کے افتتاح سے قبل ہونے والے حملے میں کم از کم 19 افراد ہلاک جبکہ 22 افراد زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔

افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان طارق آریان کا کہنا ہے کہ تین مسلح حملہ آور یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہوئے جس کے بعد یونیورسٹی میں بھگڈر مچ گئی اور طلبہ نے سرسیمگی کے عالم میں بھاگنا شروع کر دیا۔

انھوں نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے کیمپس کا محاصرہ کر لیا اور حملہ آواروں کی فائرنگ کا جواب دیا۔

طارق آریان کے مطابق، ”حملہ آور تین تھے، جو سکیورٹی دستوں کے ساتھ کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔‘‘ ابھی تک کسی بھی دہشت گرد گروپ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ تاہم افغان طالبان نے اپنے ایک بیان میں واضح کر دیا ہے کہ یہ حملہ نہ تو طالبان کے جنگجوؤن نے کیا اور نہ ہی طالبان کا اس سے کوئی تعلق ہے۔

تاہم افغان صدر اشرف غنی اور نائب صدر امراللہ صالح نے طالبان کو واقعے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

امراللہ صالح کا اپنی ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ واقعہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے جس کی تحقیقات کی جائیں گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ طالبان اور اُن کے ہمدرد اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کر کے اس کارروائی میں اپنے ہاتھ صاف نہیں کر سکتے۔

افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس بزدلانہ کارروائی قرار دیا ہے۔

کابل یونیورسٹی میں فائرنگ کے بعد طلبہ کو یونیورسٹی کی دیواریں پھلانگتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے لکھا ہے کہ اس حملے کے آغاز کے پانچ گھنٹے بعد تک بھی کابل یونیورسٹی سے وقفے وقفے سے فائرنگ اور دستی بموں کے دھماکوں کی آوازیں سناتی دے رہی تھیں۔

اس خونریز واقعے میں تین مسلح حملہ آوروں نے یونیورسٹی میں کتاب میلے کی جگہ پر پہنچ کر فائرنگ کرنا شروع کر دی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد سکیورٹی دستے بھی وہاں پہنچ گئے، اور ان کا حملہ آوروں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا، جو پانچ گھنٹے تک جاری رہا۔

کابل یونیورسٹی افغانستان کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے۔ جہاں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی مجموعی تعداد 17 ہزار کے قریب بنتی ہے۔ اس یونیورسٹی میں ایرانی کتاب میلے کے افتتاح کے موقع پر کیا جانے والا حملہ اس ادارے کے مشرقی حصے میں کیا گیا، جہاں قانون اور صحافت کے تعلیمی شعبے واقع ہیں۔

یہ حملہ کابل یونیورسٹی میں اہتمام کردہ ایرانی کتب کے اس میلے پر کیا گیا، جس میں افغانستان میں ایران کے سفیر کو بھی شرکت کرنا تھی۔ بظاہر اس حملے کا مقصد ایرانی سفیر کو نشانہ بنانا بھی تھا کیونکہ عسکریت پسندوں نے یہ خونریز کارروائی اس بک فیئر کے افتتاح سے کچھ ہی دیر پہلے کی۔ جس وقت یہ خونریز حملہ کیا گیا، اس وقت بک فیئر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے وہاں کئی اہم حکومتی اور غیرملکی شخصیات پہنچ چکی تھیں۔

ایران کی نیم سرکاری خبر ایجنسی اِسنا کے مطابق اس میلے کی افتتاحی تقریب میں کابل میں ایرانی سفیر بہادر امینیان اور ایرانی سفارت خانے کے کلچرل اتاشی کو بھی شرکت کرنا تھی اور میلے کا تو افتتاح بھی ایرانی سفیر ہی کو کرنا تھا۔

اس بک فیئر میں 40 ایرانی پبلشرز کی شائع کردہ کتابوں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایران کے سرکاری میڈیا نے اپنی نشریات میں یہ تو بتایا کہ کابل یونیورسٹی میں ایک خونریز حملہ ہوا ہے، تاہم اس میلے میں جن ایرانی سفارت کاروں اور سرکردہ شخصیات کو شرکت کرنا تھی، ان کے بارے میں تہران میں ایرانی میڈیا نے کچھ نہ کہا۔

ہائیر ایجوکیشن کی وزارت کے ترجمان نے بتایا کہ یونیورسٹی کے شعبہ قانون اور پولیٹیکل سائنس کے باہر فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں جس کے بعد بڑی تعداد میں طلبہ اور اساتذہ کو بحفاظت نکال لیا گیا۔

کابل یونیورسٹی میں فائرنگ کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں جن میں طلبہ کو ادھر اُدھر بھاگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

گذشتہ مہینے کابل میں ایک نجی ٹیوشن سینٹر پر نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) کی طرف سے ایک حملے میں 24 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی شدت پسند گروہ نے سن 2018 میں یونیورسٹی کے سامنے ایک حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی جس میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

افغانستان میں حالیہ دنوں میں جب طالبان اور کابل حکومت کے درمیان بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

یاد رہے کہ رواں برس فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا جس میں طالبان کے دہشت گردی کی روک تھام کی یقین دہانیوں کے بدلے امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج مئی 2021 تک واپس بلانے کا کہا تھا۔

طالبان نے اس کے بدلے مستقل جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ شراکتِ اقتدار کا فارمولا طے کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ستمبر میں مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ البتہ ان مذاکرات میں کسی بھی قسم کی پیش رفت کی رپورٹ سامنے نہیں آ سکی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں