پاکستان میں سوشل میڈیا کے نئے قواعد نافذ، اسٹیک ہولڈرز کی شدید مخالفت

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان میں وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سوشل میڈیا قواعد کا باقاعدہ نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے۔ نوٹی فکیشن کے ذریعے نافذ کیے جانے والے قواعد کو انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں، ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے ماہرین سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز نے سخت ظالمانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

حکومت کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق سوشل میڈیا پرتوہین مذہب، مذہبی منافرت، پاکستان کے وقار، سلامتی، دفاع، وفاقی و صوبائی حکومت، قانون نافذ کرنے اداروں، انٹیلیجنس ایجنسیز، سیاست دانوں، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کے خلاف، نظریاتی اساس اور ثقافتی اقدار کے خلاف مواد بلاک کرنے کیلئے متعلقہ کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے۔

پی ٹی اے کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں متعلقہ سوشل میڈیا کمپنی یا ویب سائٹ کو مکمل طور پر بلاک کر دیا جائے گا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں لگے گی۔

دستاویز کے مطابق رولز کا اطلاق ہونے کے 9 ماہ کے اندر اندر 5 لاکھ سے زائد صارفین رکھنے والے سروس پروائیڈرز اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو پی ٹی اے کے ساتھ رجسٹرڈ ہونے اور پاکستان بالخصوص اسلام آباد میں رجسٹرڈ دفتر قائم کرنا لازم ہو گا۔

ان نئے قواعد کے تحت یوٹیوب، فیس بک، ٹویٹر، ٹک ٹاک، گوگل پلس، لنکڈان سمیت سوشل میڈیا یا کسی بھی ویب سائٹ پر ہتک آمیز، گستاخانہ مواد، نازیبا تصویر شائع کرنے پر پی ٹی اے کو شکایت درج کرائی جاسکے گی۔

ان قواعد کے سیکشن 37 کے سب سیکشن 1 کے تحت اسلام کے خلاف مواد، پاکستان پینل کوڈ اور ملکی سلامتی کے خلاف مواد کو ہٹایا جا ئے گا۔

پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 292,293 ,294 اور 509کے تحت غیر اخلاقی مواد پر پابندی عائد کی جا سکے گی اور غلط معلومات کی تشہیر کو بھی روکا جائے گا۔

آن لائن مواد کے خلاف کوئی بھی شخص شکایات درج کرا سکے گا۔ اتھارٹی کی جانب سے شکایت کنندہ کی حفاظت کے پیش نظر اس کی شناخت کو صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ درج کی گئی شکایت کو اتھارٹی کی جانب سے 30 دن کے اندر نمٹایا جائے گا۔

اتھارٹی فیصلہ جاری کرنے سے پہلے سوشل میڈیا کمپنی، انٹرنیٹ سروس پروائیڈر، ویب سائٹ مالک کو مواد ہٹانے کے لئے 24 گھنٹے کا وقت دے سکے گی۔

ایمرجنسی کی صورت میں 6 گھنٹے میں آن لائن مواد کو ہٹانے کا حکم دیا جا سکے گا۔ انٹرنیٹ سروس پروائڈر، سوشل میڈیا کمپنی، ویب سائٹ مالک کی جانب سے غیرقانونی مواد کو نہ ہٹانے کی صورت میں پی ٹی اے کی جانب سے ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔

شکایت ملنے کی صورت میں پی ٹی اے ماہرین کی رائے حاصل کر سکے گا۔ انٹرنیٹ سروس پروائیڈر، سوشل میڈیا کمپنی، ویب سائٹ مالک کی جانب سے معلومات تک رسائی کے حوالے سے گائیڈ لائن شائع کی جائے گی۔

سروس پروائیڈر کا مواد سے کوئی تعلق نہیں، وہاج السراج

ان نئے قواعد کے حوالے سے انٹرنیٹ سروس پروائیڈر آف پاکستان کے کنونئیر وہاج السراج نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیکا قوانین کے مطابق سروس پروائیڈر کا انٹرنیٹ پر جاری مواد سے کوئی تعلق نہیں، لیکن ان نئے رولز میں سروس پروائیڈرز کو بھی شامل کر لیا گیا کہ وہ مواد کے ذمہ دار ہیں۔

اس مقصد کے لیے انہیں انتہائی مہنگی ٹیکنالوجی خریدنا ہو گی جو ممکن نہیں ہے۔

بائٹس فار آل کے شہزاد احمد کہتے ہیں کہ گوگل اور فیس بک سمیت مختلف کمپنیاں پہلے بھی اس بارے میں کہہ چکی ہیں کہ وہ ان قواعد کی موجودگی میں پاکستان میں کام نہیں کر سکتیں۔ ان قواعد کی مدد سے انٹرنیٹ پر آزادی محدود کر دی گئی ہے اور ہم اس کے خلاف ہیں۔

شہزاد احمد نے کہا کہ ہم اس بارے میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہلے ہی جا چکے ہیں اور اس معاملے کو ہم عدالت میں دیکھیں گے کیونکہ یہ بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں