سعودی سماجی کارکن لجين الهذلول کو پانچ سال قید کی سزا

ریاض (ڈیلی اردو/بی بی سی) سعودی عرب میں خواتین کے ڈرائیونگ کرنے کے حق میں مہم چلانے والی معروف سماجی کارکن کو پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

لجين الهذلول پہلے ہی ڈھائی برس سے سخت سکیورٹی والی جیل میں قید ہیں۔

انھیں اور ان کی دیگر ساتھیوں کو سعودی حکام نے سنہ 2018 میں یہ دیگر الزامات سمیت یہ کہہ کر حراست میں لے لیا تھا کہ ان کے سعودی عرب مخالف تنظیموں سے روابط ہیں۔

واضح رہے کہ انسانی حقوق پر کام کرنے والی عالمی تنظیموں نے بھی لجين الهذلول کی رہائی کا بارہا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم پیر کو ملک کی فوجداری مقدمات سننے والی ایک خصوصی عدالت نے، جو دہشتگردی کے مقدمات نمٹانے کے لیے بنائی گئی تھی، لوجین کو متعدد جرائم میں قصور وار قرار دیا، جس میں قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے جیسے جرائم بھی شامل ہیں۔

لجين کو پانچ سال اور آٹھ ماہ کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ان کی اس سزا میں سے دو سال اور دس ماہ کا عرصہ معطل کر دیا گیا ہے۔

لوجین اور ان کے خاندان نے تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

انھوں نے سعودی حکام پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ انھوں نے لوجین کو دروان حراست تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ تاہم عدالت نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

لجين کو 2018 میں سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کے حقوق دینے سے چند ہفتے قبل حراست میں لیا گیا تھا۔ تاہم سعودی حکام کا اصرار ہے کہ لوجین کو ڈرائیونگ کے حق کے لیے مہم چلانے کی پاداش میں سزا نہیں سنائی گئی ہے۔

لجين کے خاندان کا کہنا ہے کہ سعودی حکام نے انھیں گرفتاری کے بعد تین ماہ کے لیے ایک نامعلوم مقام پر حراست میں رکھا، جہاں ان سے کسی کا بھی رابطہ نہیں تھا۔ ان کا الزام ہے کہ دوران حراست لوجین کو بجلی کے جھٹکے بھی لگائے گئے اور جنسی ہراسانی کے علاوہ ان پر کوڑے بھی برسائے گئے۔

خاندان والوں کے مطابق سعودی حکام نے مبینہ طور پر لوجین کو یہ پیشکش بھی کی کہ اگر وہ تشدد کی تردید کر دے تو پھر انھیں رہائی مل سکتی ہے۔

انسانی حقوق کے ماہرین کی رائے میں لجين کا ٹرائل عالمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔

نومبر میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے لجين کے مقدمے کی فوجداری مقدمات سننے والی خصوصی عدالت میں منتقلی کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس اقدام نے سعودی حکام کے ’ظالمانہ ہتھکنڈوں اور دوغلے پن‘ کو واضح کر دیا ہے۔

یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس مقدمے سے سعودی عرب کے متنازع حکمران محمد بن سلمان کی شہرت کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں اصلاحات متعارف کرائی ہیں جن میں خواتین پر ڈرائیونگ کی پابندی کا خاتمہ بھی شامل ہے تاکہ سعودی عرب جیسی قدامت پسند ریاست میں بیرونی سرمایہ کاری کو بڑھایا جا سکے۔

محمد بن سلمان پر سماجی کارکنان کے خلاف کارروائیوں پر مذمت کی جاتی ہے اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی حکام کے کردار سے متعلق بھی ان کی مذمت کی جاتی ہے۔

’لجین انسانی حقوق کی پامالی کیخلاف ایک علامت بن کر ابھری ہیں‘

قید کی وجہ سے لجين کی شہرت میں اس وقت سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا ہے جب وہ اپنی بہادرانہ سماجی کام کے تحت خواتین کے ڈارئیونگ کے حق میں مہم چلا رہی تھیں۔

وہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف ایک علامت بن کر ابھری ہیں، جہاں طویل عرصے سے معاشی اور سماجی اصلاحات کا خواب ناممکن بنا رہا اور یہاں اب بھی سیاسی امور پر اختلاف پر ریاستی سطح پر سخت اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔

جب جو بائیڈن امریکہ کی صدارت کا منصب سنبھالیں گے تو یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ وہ سعودی عرب میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر سخت مؤقف اختیار کریں گے۔

سعودی حکام کا خیال ہے کہ وہ اپنے ہی طریقے سے معاملات کو آگے بڑھائیں گے۔

سعودی عرب کے خیال ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کرنے والے ملک کی حیثیت سے دنیا میں اس کا ایک مقام ہے اور اس کی خطے میں ایک بالادستی ہے۔ لجين کی کچھ سزا معطل اور کچھ وہ پہلے ہی گزار چکی ہیں تو اب اس کا مطلب یہ ہے کہ باقی سماجی کارکنان سمیت نئے سال میں انھیں رہائی مل سکے گی۔

اس اقدام سے سعودی عرب پر دباؤ میں کمی واقع ہو سکتی ہے جو یہ تاثر بھی نہیں دینا چاہتا کہ وہ کسی کے دباؤ میں آ کر کوئی کام کر رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں