ولادی میر پوٹن قاتل ہیں اور انہیں انتخابات میں مداخلت کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، امریکی صدر جو بائیڈن

واشنگٹن + ماسکو (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/روئٹرز) امریکی صدر روايتی حريف ملک روس کے حوالے سے انتہائی مختلف رويہ اور لہجہ اختیار کر رہے ہیں اور دنیا اس پر باریکی سے نگاہ رکھی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ روس کے خلاف مزید پابندیوں کا اعلان کيا جا سکتا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کے لیے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی کے جارج اسٹیفن او پولس کو دیے ایک انٹرویو میں بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوٹن کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی کوششوں کی قیمت چکانی پڑے گی۔ امریکی صدر نے کہا، ”انہیں قیمت چکانی پڑے گی اور بہت جلد آپ یہ دیکھیں گے۔”

جو بائیڈن کا یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا، جب ایک روز قبل ہی امریکا کے ڈائریکٹر آف انٹيلیجنس کے دفتر (او ڈی این آئی) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کيا ہے کہ پوٹن نے’سن 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات کو متاثر کرنے کے مقصد سے بائیڈن کی امیدواری اور ڈیموکریٹک پارٹی کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کی منظوری دی تھی، سابق صدر ٹرمپ کی حمایت کی اور انتخابی عمل میں عوام کے اعتماد کو متزلزل کرنے نیز امریکا میں سماجی اور سیاسی تقسیم کو ہوا دینے کی کوشش کی۔”

‘پوٹن قاتل ہیں‘

بائیڈن نے کہا وہ پوٹن کو ‘زیادہ اچھی طرح‘ جانتے ہیں اور دونوں کے درمیان جنوری میں ‘طویل گفتگو‘ ہوئی تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اپنے سیاسی حریف کو زہر دینے کے الزام کی وجہ سے کیا وہ پوٹن کو ‘قاتل‘ سمجھتے ہیں تو بائیڈن کا کہنا تھا، ‘جی ہاں، میں ایسا ہی سمجھتا ہوں۔‘

بائیڈن کا یہ جواب ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ سے یکسر مختلف ہے، جو سن 2017 میں اسی طرح کے ایک سوال کو نہ صرف ٹال گئے تھے بلکہ انہوں نے روس کے حوالے سے امریکی غلطیوں کی تاریخ کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ انہوں نے فاکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو کے دوران کہا تھا، ’’بہت سارے قاتل ہیں، کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہمارا ملک اتنا معصوم ہے؟‘‘

روس کا رد عمل ہے

امریکی صدر بائیڈن کے بیان پر روسی پارلیمنٹ ڈوما کے سربراہ نے ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، ”پوٹن پر حملے کا مطلب روس پر حملہ ہے۔”

کریملن کے ترجمان دمیتری پیسکوف نے انتخابات میں مداخلت کے الزامات کو’یکسر بے بنیاد اور غیر مصدقہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دعوے ماسکو کے خلاف نئی پابندیوں کو جائز قرار دینے کے لیے ‘جواز‘ بنانے کی کوشش ہيں۔

روس نے صدر بائیڈن کے الزامات کے بعد امریکا سے اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے ماسکو بلا لیا ہے۔ ماسکو حکومت کا کہنا ہے کہ وہ واشنگٹن سے بگڑتے تعلقات اس مقام پر جانے سے روکنا چاہتی ہے جہاں تعلقات کی پھر سے بہتری نا ممکن ہو جائے۔

بائیڈن کے بیان کا اثر

بائیڈن کا بیان آتے ہی روسی کرنسی روبل کی قیمت میں گراوٹ ديکھی گئی۔ امریکی کرنسی کے مقابلے میں روبل کی قیمت میں 1.4 فیصد کی گراوٹ درج ہوئی۔ نئی ممکنہ پابندیوں کے خدشے کا اثر روسی مالیاتی منڈيوں میں بھی دیکھنے کو ملا اور حکومتی بانڈز بھی گر گئے۔

نارتھ ایسیٹ مینجمنٹ کے پیٹر کسلر کا کہنا تھا، ”یہ بات واضح ہے کہ مزید پابندیاں عائد ہونے والی ہیں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ یہ کتنی سخت ہوں گی؟”

ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار

بائیڈن کا کہنا تھا کہ پوٹن کے تعلق سے ان کے ذاتی خیالات کے باوجود ”باہمی دلچسپی کے ایسے پہلو بھی ہیں جہاں ہمیں مل کر کام کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے تحدید اسلحہ معاہدہ ‘اسٹارٹ‘ کو بحال کیا۔ اور جو کچھ انہوں نے کیا اسے جانتے ہوئے بھی میں نے یہ کیا۔ کیونکہ یہ انسانیت کے مفاد میں ہے۔”

حالیہ برسوں کے دوران روس پر ہیکنگ اور انتخابات میں مداخلت کے الزامات نیز کریملن کے سخت ناقد الیکسی ناوالنی کو جیل سے رہا کرنے کے مطالبے کی وجہ سے واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔

جرمنی سے ماسکو واپس لوٹتے ہی ناوالنی کو جیل میں ڈال دینے پر امریکا نے روس کے خلاف مارچ کے اوائل میں نئی پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں