آرمی چیف قمر باجوہ کا دورہ کابل، افغان صدر اشرف غنی اور برطانوی جنرل سرنکولس پیٹرک سے ملاقات

راولپنڈی (ڈیلی اردو) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان تمام اسٹیک ہولڈرز کے باہمی اتفاق رائے پر مبنی ’افغان امن عمل‘کی ہمیشہ حمایت کرے گا۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آج (پیر) کو کابل میں افغان صدر اشرف غنی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پرامن افغانستان کا مطلب ہے بالعموم پرامن خطہ اور بالخصوص پر پُرامن پاکستان۔

آئی ایس پی آر کے مطابق افغان صدر نے معنی خیز گفتگو پر آرمی چیف کا شکریہ ادا کیا اور افغان امن عمل میں پاکستان کے مخلص اور مثبت کردار کو سراہا۔

علاوہ ازیں اجلاس میں باہمی دلچسپی کے امور، افغان امن عمل میں حالیہ پیشرفت، دوطرفہ سلامتی اور دفاعی تعاون میں اضافہ اور دونوں برادر ممالک کے مابین سرحدی انتظام کے موثر انتظام کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ملاقات کے دوران چیف آف ڈیفنس اسٹاف یوکے جنرل سر نکولس پیٹرک کارٹر بھی موجود تھے۔

بعدازاں آرمی چیف نے افغانستان کی قومی مصالحت کی اعلی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبد اللہ سے بھی ملاقات کی اور افغان امن عمل سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔

ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلی جنس لیفٹیننٹ جنرل فیض حامد بھی سرکاری دورے کے دوران آرمی چیف کے ہمراہ تھے۔

برطانوی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل سرنکولس پیٹرک سے ملاقات

علاوہ ازیں برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل سرنکولس پیٹرک کارٹر نے بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے امور اور علاقائی سلامتی کی صورتحال خصوصاً افغان امن عمل میں موجودہ پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق ملاقات میں دوطرفہ اور دفاغی تعاون کو مزید فروغ دینے سے متعلق امور پر زیر بحث آئے۔

آرمی چیف نے ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ فلپ کے انتقال پر تعزیت کی اور کہا کہ دنیا ایک انتہائی قابل احترام دوست سے محروم ہوگئی ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاک فوج برطانیہ کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتی ہے۔

دورہ افغانستان سے قبل چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ یہ بھی پڑھیں: افغان امن معاہدے میں پاکستان کے لیے ‘نیا کردار’ ممکن ہوسکتا ہے، امریکی تجزیہ کار

جہاں انہوں نے پاکستان اور سعودی عرب کی خودمختاری اور حرمین شریفین کے دفاع کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے جدہ میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، سعودی نائب وزیراعظم و وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان اور نائب وزیر دفاع سے ملاقات کی تھی۔

واضح رہے کہ یہ ملاقات ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکا نے افغانستان سے فوج کے شیڈول انخلا سے قبل وہاں سے آلات نکالنے شروع کر دیے ہیں۔

افغانستان سے انخلا کرنے والے فوجیوں کی سیکیورٹی کے لیے بھی منصوبے پر عمل کیا جارہا ہے اور اس حوالے سے خطے میں زیادہ دور تک ہدف کو نشانہ بنانے والے بمبار تعینات کیے گئے ہیں۔

افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا عمل چند ہفتوں میں شروع ہونے کا امکان ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے 15 اپریل کو افغانستان سے رواں سال 11 ستمبر تک فوج کا مکمل انخلا کرکے ملک کی بیرون ملک سب سے طویل فوجی جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، اس روز نائن الیون حملوں کی 20ویں برسی بھی ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں