سپریم کورٹ نے رحیم یار خان میں مندر پر حملے کے معاملے کا ازخود نوٹس لے لیا

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے جنوبی پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں گذشتہ روز مندر پر ہونے والے حملے پر از خود نوٹس لے لیا ہے۔

چیف جسٹس نے یہ از خود نوٹس رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار کے ساتھ جمعرات کو ہونے والی ملاقات کے بعد لیا۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز رحیم یار خان کے علاقے بھونگ شریف میں ایک مندر پر مشتعل افراد کے حملے اور شدید توڑ پھوڑ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے رینجرز کو طلب کیا تھا۔

عدالت نے اس از خود نوٹس کیس کی سماعت چھ اگست کو مقرر کی ہے جس میں پنجاب کے چیف سیکریٹری اور پنجاب پولیس کے سربراہ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے ان افسران کو اس واقعہ سے متعلق تفصیلی رپورٹ بھی پیش کرنے کا کہا ہے۔ سپریم کورٹ نے پاکستان ہندو کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر رمیش کمار کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

سوشل میڈیا پر اس واقعے کے حوالے سے وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا تھا کہ درجنوں افراد ڈنڈوں، پتھروں اور اینٹوں کے ساتھ مندر کی کھڑکیوں، دروازوں اور وہاں موجود مورتیوں کو توڑ رہے ہیں۔

پولیس نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ فوری طور پر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

ڈی پی او رحیم یار خان اسد سرفراز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت صادق آباد کے علاقے بھونگ شریف میں پولیس کا آپریشن جاری ہے۔

بعد ازاں انھوں نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ رینجرز اور پولیس اہلکار علاقے میں تعینات کر دیے گئے ہیں، صورتحال کنٹرول میں ہے اور یہاں کے مکینوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت واقعے کے حوالے سے قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔

یہ واقعہ جس علاقے میں پیش آیا ہے وہاں ہندو برادری کے 80 مکانات اس مندر کے گرد ہی موجود ہیں۔ علاقے میں اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے۔

تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اس قسم کا کوئی واقعہ یہاں اس سے پہلے پیش نہیں آیا۔

قومی اسمبلی کے رُکن اور ملک میں ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر رمیشں کمار نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ بدھ کے روز بارہ بجے علاقے میں حالات کی کشیدگی کی ابتدا ہوئی تھی۔

بھونگ تھانے کے اے ایس آئی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ علاقے میں موجود ایک جیولر نے فیس بک پر ایک پوسٹ کی جس میں لکھا کہ ’یہاں مسلمان اور ہندو اکٹھے کھاتے ہیں انھیں اس سے روکا جائے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد وہاں جھگڑا شروع ہو گیا اور یہاں قریب کچے کا علاقہ بھی ہے تو شرپسند عناصر بھی یہاں پہنچ گئے۔

پولیس اہلکار کے مطابق مقامی مندر میں مشتعل افراد نے توڑ پھوڑ کی اور پولیس جب موقع پر پہنچی تو اس پر بھی پتھراؤ کیا۔

انھوں نے بتایا کہ ابھی واقعے کی ایف آئی آر تو درج نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی گرفتاری ہوئی ہے تاہم ابھی حالات کنٹرول میں ہے اور رینجرز بھی یہاں موجود ہے۔

پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر رمیش نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کو علاقے میں 23 جولائی کو پیش آنے والے ایک واقعے سے جوڑا جس میں ایک آٹھ سالہ بچے پر توہین مذہب کا الزام لگا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ 24 تاریخ کو ہم نے ایک آٹھ سال کے بچے کے خلاف 295 اے کے تحت مقدمہ درج کیا۔

انھوں نے بتایا کہ مقامی مدرسے کی انتظامیہ نے الزام لگایا تھا کہ لائبریری میں ایک بچے نے آکر پیشاب کیا ہے۔

پولیس کی جانب سے واقعے کی ایف آئی آر درج ہوئی اور بچے کو گرفتار کیا گیا۔

اے ایس آئی کے مطابق چونکہ بچہ نابالغ تھا اس لیے قانون کے مطابق 295 اے کی سخت سزا اسے دی نہیں جا سکتی تھی۔ مجسٹریٹ صاحب نے ضمانت پر28 تاریخ کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔

ڈاکٹر رمیشں نے بتایا کہ رحیم یار خان کے ڈی پی او نے اس بچے کو اٹھایا اور وہ پوسٹ ڈیلیٹ کروائی اور پھر اسے چھوڑ دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ لڑکے کو چھوڑنے کے بعد علاقے میں دوبارہ سے ایکٹویٹی شروع ہو گئی۔

’شام کو چار بجے سی پیک کا روڈ 25 کے قریب لوگوں نے بلاک کیا۔ میں نے ایڈیشنل آئی جی کو بتایا۔ ساڑھے چھ بجے انھوں کے مندر پر حملہ کیا تھا۔ گھروں میں جانے کی کوشش کی۔ پھررینجرز کو بلایا گیا۔ اور اب صورتحال کنٹرول میں ہے۔‘

ڈاکٹر رمیش نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ واقعے کا نوٹس لیں۔ انھوں نے واقعے میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں