وادی پنجشیر: ہیتھار پھینکنے کے بجائے مرنے کو ترجیح دوں گا، احمد مسعود

کابل (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) طالبان مخالف ملیشیا کے رہنما احمد مسعود نے طالبان کے آگے ہتھیار پھینکنے کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک بہتر افغانستان کے لیے مذاکراتی عمل میں شرکت کے لیے تیار ہیں۔

بدھ کے دن جریدے پیرس میچ میں شائع ہونے والے انٹرویو میں وادی پنجشیر میں موجود احمد مسعود نے کہا، ”میں سرنڈر کرنے کے بجائے مرنے کو ترجیح دوں گا۔‘‘ فرانسیسی فلاسفر بیرنڈ ہنری لیوی کو دئے گئے اس انٹرویو میں مسعود کا مزید کہنا تھا، ”میں احمد مسعود کا بیٹا ہوں، ہتھیار پھینکنا میری لغت میں نہیں ہے۔‘‘

طالبان کی طرف سے افغانستان پر قبضے کے بعد دیے گئے اپنے اولین انٹرویو میں احمد مسعود نے دعویٰ کیا کہ قومی مزاحمتی فرنٹ کے بینر تلے ہزاروں جنگجو ان کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں اور طالبان کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار ہیں۔

احمد مسعود نے اپنا مطالبہ دہرایا کہ مغربی ممالک ان کی ملیشیا کو مسلح کریں۔ مسعود نے کہا، ”میں جن سے اسلحہ مانگ رہا ہوں، ان کی طرف سے آٹھ دن قبل کی گئی تاریخی غلطی کو کبھی بھول نہیں سکوں گا۔‘‘

احمد مسعود کے مطابق، ”انہوں نے مجھے انکار کیا۔ اور اب یہ ہتھیار، توپخانے، ہیلی کاپٹرز اورامریکی ساختہ ٹینک طالبان کے ہاتھوں میں ہیں۔‘‘

احمد مسعود نے البتہ کہا کہ وہ خوشحال افغانستان کے لیے مذاکراتی عمل میں شرکت کو تیار ہیں اور انہوں نے مجوزہ معاہدے کے بنیادی نکات بھی تیار کر لیے ہیں، ”ہم بات کر سکتے ہیں۔ سبھی جنگوں میں مذاکرات بھی ہوتے ہیں۔ میرے والد ہمیشہ ہی اپنے دشنموں سے گفتگو کے لیے تیار رہتے تھے۔‘‘

وادی پنجشیر کا محاصرہ

طالبان جنگجو وادی پنجشیر کا محاصرہ کر چکے ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے اس ناقابل تسخیر وادی میں سوویت جنگ کے ہیرو احمد شاہ مسعود کے بیٹے کے علاوہ وہ افغان فوجی بھی موجود ہیں، جو سقوط کابل کے بعد طالبان کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار ہیں۔

ہندو کش پہاڑی سلسلے میں واقع وادی پنجشیر چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے جبکہ اس میں داخل ہونے کے لیے ایک ہی راستہ ہے، جو انتہائی تنگ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس وادی کا دفاع انتہائی آسان ہے۔ افغانستان کا یہ واحد علاقہ ہے، جہاں ابھی تک طالبان کی عملداری ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم طالبان اس تاریخی وادی کا محاصرہ کیے ہوئے اور مذاکرات سے اس تنازعہ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

اس وادی میں نہ صرف سوویت جنگ کے ہیرو احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کی ملیشیا ڈھیرے ڈالے ہوئے ہے بلکہ سقوط کابل کے بعد افغان سکیورٹی فورسز کے درجنوں کمانڈوز بھی طالبان کے خلاف مزاحمت کے لیے وہاں پہنچے ہوئے ہیں۔

یہ فورسز تربیت جاری رکھے ہوئے ہیں اور پرعزم ہے کہ اس مرتبہ بھی انہیں شکست نہیں دی جا سکتی۔ اس مرکزی مزاحتمی اتحاد کا کہنا ہے کہ ان کے فائٹرز جنگ کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔

برطانیہ سے تعلیم یافتہ احمد مسعود نے سقوط کابل کے بعد اس شورش زدہ ملک میں جمہوری نظام کے خلاف سرگرم انتہا پسند طالبان کا مقابلہ کرنے کی خاطر امریکا سے اسلحہ بھی طلب کیا ہے۔

بتیس سالہ احمد مسعود کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس فورس ہے لیکن اسلحہ نہیں۔ معزول نائب صدر امر اللہ صالح بھی اسی وادی میں موجود ہیں، جو آخری دم تک طالبان کو مزاحمت دکھانے کے لیے پرعزم ہیں۔

جنگ آسان نہیں ہو گی
عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ ناقابل تسخیر وادی پنجشیر میں موجود فائٹرز طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ محاصرے کی وجہ سے بہت جلد ہی ان کے پاس خوراک اور اسلحہ ختم ہو جائے گا۔

ساتھ ہی یہ امر بھی اہم ہے کہ اس مرتبہ طالبان کے پاس امریکی اتحادی فورسز کا وہ بھاری جنگی سازوسامان بھی موجود ہے، جو انہوں نے کابل پر قبضے کے بعد حاصل کر لیا ہے۔ اس بھاری گولہ باردو سے وہ وادی میں داخل ہوئے بغیر ہی اس کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

وادئ پنجشیر کی تاریخی اہمیت
یہ وہی وادی پنجشیر ہے ، جس پر اسی کی دہائی میں سوویت فورسز بھی کنٹرول حاصل نہیں کر سکی تھیں جبکہ سن انیس سو چھیانوے میں افغانستان پر قبضہ کرنے والے طالبان بھی اس وادی میں داخل نہ ہو سکے تھے۔

گوریلا فائٹر اور سن انیس سو بانوے میں افغان حکومت میں وزیر دفاع کا قلمدان سنبھالنے والے احمد شاہ مسعود تب اس وادی کا دفاع کرنے والے ایک اہم رہنما تھے۔

انہیں القاعدہ کے جنگجوؤں نے ایک خود کش حملے میں ہلاک کیا تھا۔ یہ جنگجو صحافیوں کے بھیس میں شمالی اتحاد کے رہنما احمد شاہ مسعود کا انٹرویو کرنے کی خاطر وادی داخل ہوئے تھے۔

اعتدال پسند اسلام کے حامی
احمد شاہ مسعود اور ان کے ساتھی افغانستان میں آزاد اور کثیر النسلی حکومت قائم کرنے چاہتے تھے، جس میں اعتدال پسند اسلام کے بنیادی اصول بھی تھے۔ تاہم سن انیس 1989 میں سابقہ سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد نوے کی دہائی کے آغاز میں ہی ملک میں ایک نئی خانہ جنگی شروع ہوگئی۔

اس دور میں احمد شاہ مسعود اور دیگر جنگی سرداروں میں عسکری محاذ آرائی ہوئی اور ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں طالبان تحریک نمودار ہوئی، جو مجاہدین کی آپسی لڑائی اور تباہ شدہ ملکی معیشت کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو پر کرنے کے لیے سرگرم ہو گئے۔

اس تحریک نے اسلامی قوانین کی سخت تشریحات کو بنیاد بنا کر نعرہ لگایا کہ اس ملک میں قیام امن، استحکام اور سستا انصاف اسی وقت ممکن ہو گا، جب افغانستان کو اسلامی امارات بنا دیا جائے گا۔

تب عوام سوویت جنگ کی ہولناکیوں سے باہر نہیں آئے تھے۔ بعد ازاں ایک نئی خانہ جنگی اور عدم استحکام نے انہیں طالبان سے امیدیں وابستہ کروا دیں۔ زندگی سے تنگ افغانوں کا خیال تھا کہ شائد اب یہی طالبان تحریک نجات کا باعث بن سکتی ہے۔

پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی عسکری مدد اور سعودی عرب کی طرف سے مالی فنڈنگ کے باعث کٹر نظریات کے حامل سنی جنگجوؤں نے سن انیس سو چھیانوے میں افغانستان پر قبضہ کر لیا، تو افغان عوام میں بھی ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ تاہم یہ خوشی انتہائی مختصر ثابت ہوئی۔

اب ایک مرتبہ پھر طالبان نے افغانستان پر قبضہ تو کر لیا ہے لیکن اس مرتبہ لوگ خوفزدہ ہیں کی پھر ویسا ہی نا ہو جیسا طالبان نے نوے کی دہائی میں کیا تھا۔ اگرچہ طالبان نے کہا ہے کہ اس مرتبہ وہ انتقامی کارروائی نہیں کریں گے لیکن مغربی ممالک اس حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں