سرینگر: افغانستان میں طالبان قبضے کے بعد بھارتی کشمیر میں نئے خدشات جنم لینے لگے

سرینگر (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان میں طالبان قبضے کے بعد بھارت میں یہ خدشات زور پکڑ رہے ہیں کہ افغان طالبان بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کا رُخ بھی کر سکتے ہیں۔ ان خدشات پر بھارتی کشمیر کے سیاسی حلقوں، سیکیورٹی فورسز اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کی طرف سے مختلف آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

افغان طالبان بھارتی کشمیر پر بھارت کے کنٹرول کو ناجائز قرار دیتے ہوئے ماضی میں کشمیری عسکریت پسندوں کی حمایت کا اعادہ کرتے رہے ہیں۔

طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اب بھارتی کشمیر کے عام افراد میں کئی طرح کے خدشات اور اندیشے جنم لے رہے ہیں جب کہ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی عسکریت پسند تنظیمیں طالبان کے کابل پر قبضے پر خوشی کا اظہار کر رہی ہیں۔

اس پسِ منظر میں پندرہویں صدی کے ایک مشہور عالم اور صوفی بزرگ شاہ نعمت اللہ ولی کی پیش گوئیوں کا ایک بار پھر ذکر ہو رہا ہے بلکہ بعض حلقے ان کی ترویج و تشہیر میں بھی پیش پیش نظر آ رہے ہیں۔

شاہ نعمت اللہ نے افغانستان میں اس طرح کے حالات پیدا ہونے کی پیش گوئی کرتے ہوئے مبینہ طور پر کہا تھا کہ افغانستان کی بدلتی صورتِ حال بھارت کے لیے بغاوت اور تباہی و بربادی کا مؤجب بن جائے گی۔

ان کی فارسی زبان میں قصیدے میں لکھی گئی پیش گوئیاں اور ان کے اردو ترجمے کی کاپیاں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں کے دوران بھی خوب فروخت ہوئی تھیں۔

اگرچہ اب یہ بازار میں دستیاب نہیں بلکہ نایاب ہیں اور ان کا علیحدگی پسند حلقوں اور ان کے حامیوں کے درمیان بڑھ چڑھ کر ذکر ہو رہا ہے جب کہ بعض افراد سوشل میڈیا پر بھی ان کا چرچا کر رہے ہیں۔

شاہ نعمت اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی بیشتر پیش گوئیاں بالخصوص پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے بارے میں کہی گئی باتیں درست ثابت ہوئی تھیں۔

لیکن بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ افغانستان اور کشمیر کے بارے میں شاہ نعمت اللہ سے منسوب کیے جانے والے کئی شعر اور قصیدوں کی زبان نہایت ہی سطحی اور کئی جگہوں پر مہمل ہے لہٰذا یہ ان کی نہیں ہو سکتیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض حالات و واقعات اور علاقوں کے حوالے سے ان کی نام نہاد پیش گوئیوں کو ان کے ایک ہم نام صاحبِ باطن اور دہلی میں پیدا ہونے والے نعمت اللہ ولی جنہیں اولیائے ہند میں شمار کیا جاتا ہے، کے اشعار سے خلط ملط کیا گیا ہے اس لیے یہ معتبر اور مستند نہیں ہیں۔

شاہ نعمت اللہ قادری نے واقعی اس طرح کی پیش گوئیاں کی ہیں یا نہیں اور ان کے قصیدے ایک بار پھر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے بعض حلقوں میں زیرِ بحث ہیں۔

‘کسی بھی چیلنج کا پیشہ ورانہ طریقے سے مقابلہ کیا جائے گا’

افغان طالبان کے کشمیر کا رخ کرنے سے متعلق سری نگر کے اعلیٰ پولیس عہدیدار وجے کمار نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس طرح کی کوئی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے تو بھارتی فوج، دیگر سیکیورٹی فورسز اور مقامی پولیس اس کا پیشہ ورانہ طور پر مقابلہ کریں گے۔

انہوں نے کہا “ایک پولیس افسر کی حیثیت سے میں یہی کہوں گا کہ اگر کوئی یہاں آ گیا تو میرا کام اس سے متعلق اطلاعات حاصل کرنے کے بعد فوج کے ساتھ مل کر اس خطرے سے نمٹنے کے لیے کارروائی کرنا ہے۔”

ان کے بقول آئندہ در پیش کسی بھی چیلنج کا پیشہ ورانہ طریقے سے مقابلہ کیا جائے گا۔ ہم مکمل طور پر خبردار اور چُست ہیں۔

‘بھارت خطرے سے غافل نہیں رہ سکتا’

بھارت کی فوج کے سابق جنرل سید عطا حسنین کا کہنا ہے کہ فوج پہلے سے زیادہ تربیت یافتہ اور تجربہ کار ہے اور افغانستان میں پیش آنے والے واقعات سے پیدا ہونے والی ممکنہ صورتِ حال سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے تیار ہے۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم کابل کی موجودہ صورتِ حال کی وجہ سے ملک پر رونما ہونے والے ممکنہ منفی اثرات اور نتائج پر مسلسل جائزے اور نظر ثانی کے عمل سے غافل نہیں رہ سکتے۔

بھارتی فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) شنکر رائے چوہدری نے کہا کہ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ جموں و کشمیر میں اپنی سرگرمیاں بڑھائے اور اس کے عوام کو یہ یقین دہانی کرائے کہ بھارت ایک سیکیولر جمہوریت کے طور پر رواں دواں رہے گا۔

ان کے بقول، “افغانستان میں طالبان کی فتح پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کو کشمیر میں ایک نئے جارحانہ عمل کے لیے اکسا سکتی ہے یا یہ اس کا موجب بن سکتی ہے۔”

مقامی افراد تذبذب کا شکار

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عام افراد کا ایک حلقہ جہاں افغان طالبان کی ممکنہ آمد کے حوالے سے کئی خدشات اور تحفظات کا اظہار کر رہا ہے وہیں متعدد شہریوں کی یہ رائے ہے کہ اگر طالبان آ جاتے ہیں تو اس سے نہ صرف مقامی عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہو گی بلکہ یہ نئی دہلی کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے پر مجبور بھی کر سکتی ہے۔

عبدالطیف بٹ نامی شہری نے کہا کہ “اگر افغان طالبان یہاں آتے ہیں تو ایک نئی تباہی اور کُشت و خون کا آغاز ہو گا اور یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا اس بارے میں وہ بے حد خوف زدہ ہیں۔”

نذیر احمد گل کار کہتے ہیں کہ”ہم گزشتہ 32، 33 برسوں سے زندہ ہونے کے باوجود بھی مُردوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم ہزاروں نوجوانوں، بزرگوں اور بچوں کو پہلے ہی کھو چکے ہیں۔”

ان کا کہنا ہے کہ املاک کی تباہی و بربادی اپنی جگہ لیکن اب کوئی فیصلہ ہونا چاہیے۔ ہم کب تک یوں ہی پنجرے میں قید خوف زدہ پرندوں کی طرح زندگی گزارتے رہیں گے۔

‘غیر ملکی عسکریت پسند پہلے بھی انفرادی طور پر کشمیر آتے رہے ہیں’

غیر ملکی عسکریت پسند اور جہادی جنگجو پہلے بھی مقامی عسکریت پسندوں کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر آتے رہے ہیں۔

ان میں سے اکثر کا تعلق پاکستان اور افغانستان سے تھا جب کہ کئی ایک ایسے بھی تھے جو شام، سوڈان، مصر اور ترکستان کے باشندے تھے اور انہوں نے کشمیر آنے سے قبل افغانستان میں سوویت یونین کی افواج اور پھر اتحادی فورسز کے خلاف مسلح تحریکِ مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔

کشمیری عسکریت پسندوں کی ایک مختصر تعداد ایسی بھی ہے جو پاکستان کے راستے افغانستان جا کر مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے کا دعویٰ کرتی ہے۔

ان میں سے بیشتر بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلوں میں مارے جا چکے ہیں جب کہ چند اب بھی یہاں موجود ہیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے حال ہی میں کہا تھا کہ اب غیر ملکی عسکریت پسند بہت ہی قلیل تعداد میں کنٹرول لائن پار کر کے وادیٔ کشمیر یا جموں کے علاقے میں داخل ہو رہے ہیں۔

انہوں نے اس کی وجہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی بدلتی سیاسی صورتِ حال، سیکیورٹی فورسز کی جارحانہ اور کامیاب شورش، جنگجو مخالف مہم اور بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان سرحدوں پر فائر بندی کے سمجھوتے کی تجدید اور عہد و پیمان بتائی تھی۔

‘طالبان کی آمد ممکن نہیں’

تجزیہ کار اور یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا مستقبل میں افغان طالبان کے کشمیر کی طرٖف پیش قدمی کے امکان کو یکسر رَد کرتے ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ “لوگوں کے خدشات ہوں یا اُمیدیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ درست ہیں۔ طالبان ابھی کابل میں قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی پہلی کوشش ملک پر اپنی حکومت کو مضبوط اور مستحکم بنانے اور خود کو بین الاقوامی برادری کے نزدیک قابلِ قبول بنانے کے لیے ہو گی۔”

انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر دفاعی لحاظ سے کوئی ایسی غیر محکم جگہ نہیں ہے کہ کوئی بھی یہاں بلا روک ٹوک آ جا سکے۔ افغانستان میں تعینات امریکی افواج کی تعداد محض لاکھ سوا لاکھ کے قریب تھی۔ یہاں اتنی کثیر تعداد میں بھارتی مسلح افواج موجود ہیں اور سرحدوں پر ان کا ہمہ وقت کڑا پہرہ رہتا ہے۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے اثرات کشمیر پر ضرور مرتب ہوں گے۔

پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ایک دفاعی یا اسٹرٹیجک فائدہ ملا ہے جب کہ اس حوالے سے بھارت نقصان سے دوچار ہوا ہے جس کے کشمیر کے معاملے پر دور رس اور وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ پاکستان، افغانستان اور چین اس خطے کو درپیش مسائل سے متعلق ایک مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں اور شراکت داری پر آمادہ ہوتے ہیں یا نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں