تارکین وطن کا راستہ روکنے کیلئے فرانس کے سخت اقدامات

پیرس (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/روئٹرز) حالیہ برسوں کے دوران فرانس میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں حکومت پر دباؤ ڈالے ہوئے ہیں کہ مہاجرین کو روکنے کے لیے انتہائی سخت قوانین نافذ کیے جائیں۔

منگل کے روز حکومتی ترجمان گیبریل اتل نے اعلان کیا ہے کہ پیرس حکومت کی جانب سے الجزائر، مراکش اور تیونس کے عوام کے لیے مختص ویزوں کی تعداد انتہائی کم کر دی گئی ہے۔ ان تینوں ملکوں نے اپنے ایسے شہریوں کو واپس قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، جنہیں فرانس نے غیرقانونی مہاجرین قرار دیتے ہوئے ملک سے بے دخل کر دیا تھا۔

جاری ہونے والے بیان کے مطابق الجزائر اور مراکش کے لیے مختص ویزوں کی تعداد نصف کر دی گئی ہے جبکہ تیونس کے لیت مقرر تقریبا ایک تہائی ویزے ختم کیے گئے ہیں۔

فرانس نے ویزے کم کیوں کیے؟

جب فرانسیسی عدالت کسی شخص کے ویزے کی درخواست مسترد کرتی ہے تو حکام کو لازمی طور پر اس کے آبائی ملک سے ایک خصوصی سفری پاس چاہیے ہوتا ہے تاکہ متاثرہ شخص کو زبردستی ملک بدر کیا جا سکے۔ حکومتی ترجمان گیبریل اتل کے مطابق الجزائر، مراکش اور تیونس نے ایسے سفری پاس فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

دوسری جانب کورونا وباء کی وجہ سے بھی ایسے ملک بدریوں میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ فرانس نے غیرقانونی مہاجرین کے راستے بند کرنے کے لیے سن دو ہزار اٹھارہ میں سخت قوانین متعارف کروائے گئے تھے اور اس کے بعد سے کئی ممالک کے ساتھ پیرس حکومت نے سفارتی سطح پر مذاکرات جاری کر رکھے ہیں۔

نیوز ایجنسی اے پی نے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فرانسیسی صدر خاص طور پر شمالی افریقی ممالک کے ان مہاجرین کو واپس بھیجنا چاہتے ہیں، جن پر انتہاپسندی میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔

شمالی افریقی ممالک نے کیا جواب دیا؟

مراکش کے وزیر خارجہ ناصر بوریطہ نے ان فرانسیسی اقدامات کو ”نا انصافی‘‘ قرار دیا ہے، ”یہ فیصلہ فرانس کی طرف سے یکطرفہ طور پر کیا گیا ہے۔ مراکش اس کا بغور جائزہ لے گا۔ لیکن اس کے جواز میں دی گئیں وجوہات کے بارے میں وضاحت اور بات چیت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ حقیقت کے برعکس ہیں۔‘‘

دوسری جانب تیونس کے صدارتی دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں فرانس کے اس اقدام پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ تیونس کے مطابق ان کا شمار تو ان ممالک میں ہوتا ہے، جو مہاجرین کے حوالے سے فرانس کے ساتھ قریبی تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا دباؤ

فرانس کی طرف سے ویزے کم کرنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں صدار ایمانویل ماکروں پر سخت امیگریشن پالیسیاں نافذ کرنے کے لیے دباؤ ڈالے ہوئے ہیں۔

فرانس میں اگلے سال کے صدارتی انتخابات کے دوران مہاجرین سے متعلق پالیسی انتہائی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ ماکروں کا مقابلہ ایک مرتبہ پھر مہاجرین اور اسلام مخالف انتہائی دائیں بازو کی لیڈر مارین لے پین سے ممکن ہے۔

پیر کے روز مارین لے پین نے فرانس 2 ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ برس اگر وہ صدر منتخب ہو گئی تو ایک ریفرنڈم کروایا جائے گا تاکہ فرانس میں داخل ہونے اور شہریت حاصل کرنے کے عمل کو سخت ترین بنایا جا سکے۔ مارین لے پین کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیرملکیوں کی بجائے فرانسیسی شہریوں کی سماجی رہائشوں، ملازمتوں اور سماجی تحفظ کے فوائد تک رسائی کو ترجیح دی جائے گی۔

سن دو ہزار سترہ میں لے پین صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے تک پہنچ گئی تھیں لیکن انہیں ماکروں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا ماکروں آئندہ صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں