اسلام آباد: سوشل میڈیا پر 3 سال میں توہین مذہب کے 256 کیسز رپورٹ

اسلام آباد (ڈیلی اردو) سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر تین سالوں کے دوران توہین مذہب کے 256 کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ صرف ایک پر جرم ثابت ہوتے ہوئے سزا سنائی گئی ہے۔

وزرات داخلہ کی جانب سے سینٹ کو جمع کرائی گئی تفصیلات کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی جانب سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر توہین مذہب کے 256 کیسز بھیجے گئے ہیں۔

ان 3 سال میں کل 66 کے مقدمات ایف آئی اے نے درج کئے ہیں جبکہ اب تک عدالت نے صرف ایک کیس میں سزا سنائی ہے اسی طرح 4 کیسز میں ملزم تاحال گرفتار نہیں ہو سکے ہیں۔

سینٹر فار سوشل جسٹس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال یعنی 2020 میں سب سے زیادہ یعنی 200 افراد کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمات درج کیے گئے۔ یہ تعداد توہینِ مذہب کے قانون میں سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں کی گئی ترمیم کے 37 سال بعد سب سے زیادہ ہے۔

اس سے قبل سال 2009 میں سب سے زیادہ 113 افراد پر ان الزامات کے تحت مقدمات قائم کیے گئے تھے۔

رپورٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سال 1987 سے 2020 تک کل 1855 افراد پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کیا گیا جن میں سے 1673 مرد، 84 خواتین اور 97 افراد کی جنس کی شناخت نہیں ہو سکی۔

ملک میں ایک کمپنی کے خلاف بھی توہینِ مذہب کا کیس دائر کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کیسز مذہبی عقائد، مقدس کتب، انبیاء کی توہین، مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا یا دوسروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی دفعات کے تحت درج کیے گئے تھے۔

‘زیادہ کیسز اقلیتوں کی بجائے مسلمانوں کے خلاف درج ہوئے’

رپورٹ میں حیرت انگیز انکشاف یہ بھی سامنے آیا ہے کہ توہینِ مذہب کے کیسز میں مسلمانوں کی غیر مسلموں کے خلاف شکایات کے رحجان میں تبدیلی آئی ہے اور اب مسلمان ہی مسلمانوں کے خلاف اس قانون کے تحت زیادہ مقدمات درج کرا رہے ہیں۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس عمل سے قانون کے غلط استعمال سے اقلیتی فرقے یا مذہبی شناخت رکھنے والے سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔

رپورٹ کے مصنفین نے اس سے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس عمل سے ملک میں گہری ہوتی فرقہ واریت کی خلیج اور مذہب کے غلط استعمال کے بڑھتے ہوئے رحجان کی نشان دہی ہوتی ہے۔

توہین مذہب کے قانون کی زد میں آنے والوں کی نصف تعداد مسلمان ہے

تحقیق کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مسلمان متاثرین کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی کا زیادہ ہونا بھی ہے۔ لیکن غیر مسلم آبادی کی کم تعداد کے باوجود ان کے خلاف ایسے کیسز کا تناسب زیادہ بنتا ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے الزامات سے متاثرہ مسلمانوں کےخلاف تفتیش کے مرحلے ہی میں مسئلہ حل ہو جاتا ہے، لیکن غیر مسلم متاثرہ افراد کو عام طور پر ان الزامات کا عدالت میں سامنا کرنا پڑتا ہے جو رپورٹ کے مطابق ان کی سزا پر منتج ہوتا ہے۔

‘سینٹر فار سوشل جسٹس’ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 میں جن 200 افراد پر توہینِ مذہب کے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے، ان میں 75 فی صد مسلمان تھے جس کے بعد 20 فی صد احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے، ساڑھے تین فی صد کے قریب مسیحی اور ایک فی صد ہندو شامل تھے۔

رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق جن مسلمانوں پر ان قوانین کا اطلاق کیا گیا ان میں سے 70 فی صد شیعہ مسلک کے تھے۔

اسی طرح رپورٹ کے مندرجات کے مطابق 37 سال کے دوران 76 فی صد مقدمات پنجاب جب کہ 19 فی صد سندھ اور خیبر پختونخوا میں دو فی صد مقدمات قائم کیے گئے۔

سال 2020 کے اختتام پر پنجاب کی جیلوں میں ان الزامات کے تحت 337 قیدی موجود تھے۔ اسی طرح یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اب تک اس نوعیت کے الزام کا سامنا کرنے والے 78 افراد کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ جن میں سے 42 مسلمان، 23 مسیحی، نو احمدی، پانچ ہندو اور دو ایسے افراد بھی شامل تھے جن کے مذہب کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

رپورٹ کے مطابق توہینِ مذہب کے الزامات کو بنیاد بنا کر نفرت کے پرچار، تشدد پسند تنظیموں کی جانب سے ذہن سازی اور فنڈز جمع کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں