بھارت: دہلی پولیس کا پاکستانی دہشت گرد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ

دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت میں دہلی کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے اسپیشل سیل نے ایک مشتبہ دہشت گرد کو گرفتار کیا ہے جس کا تعلق پاکستان سے بتایاجا رہا ہےاور اس پر الزام لگایا ہے کہ وہ تہواروں کے موسم میں دارالحکومت نئی دہلی میں حملے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔

پولیس کے مطابق اس شخص کو دہلی کے علاقے لکشمی نگر سے پیر کی شب گرفتار کیا گیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق منگل کو اسے دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے اسے 14 دن کی پولیس تحویل میں دے دیا۔

پولیس کے اسپیشل سیل کے ڈپٹی کمشنر پرمود کشواہا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشتبہ پاکستانی شہری کی شناخت محمد اشرف علی کے نام سے ہوئی ہے جو ان کے بقول پاکستان میں پنجاب کے نارووال کا رہائشی ہے۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس شخص نے جعلی دستاویزات کی بنیاد پر بھارت کا شناختی کارڈ بنوا لیا تھا۔

’الزام جھوٹا پروپیگنڈا ہے‘

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے مشتبہ دہشت گرد کی گرفتاری پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس گرفتاری سے متعلق جو الزام عائد کیا گیا ہے وہ اس کے بقول بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی، غیر قانونی اقدامات، ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ زیادتی سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔

بیان میں دعوی کیا گیا ہے کہ یہ ایک جھوٹا پروپیگنڈا ہے جو پاکستان کے اس اندیشے کو درست ثابت کرتا ہے کہ بھارت ماضی کی طرح پاکستان اور کشمیری عوام کو موردِ الزام ٹھیرانے کے لیے مبینہ طور پر جھوٹے فلیگ آپریشنز کی سازش کر رہا ہے۔

’گرفتار شخص کئی برس سے بھارت میں رہ رہا تھا‘

مشتبہ شخص کو عدالت میں پیش کیے جانے کے موقع پر دہلی کی پولیس نے عدالت کو بتایا کیا کہ محمد اشرف مبینہ طور پر کئی برس سے بھارت میں رہ رہا تھا۔

پولیس نے عدالت سے درخواست کی اس مبینہ دشت گرد سے مزید تفتیش کرنا باقی ہے اور یہ معلوم کرنا ہے کہ اس کے رابطے میں کون کون لوگ تھےاور کن لوگوں نے اس کی مدد کی۔ لہٰذا اس کو پولیس تحویل میں دیا جائے۔

رپورٹس کے مطابق محمد اشرف علی کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون یو اے پی اے، آرمز ایکٹ اور دیگر دفعات کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔

بھارت کے نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق محمد اشرف علی نے انکشاف کیا کہ 2009 میں جموں بس اسٹینڈ پر ہونے والے بم دھماکے میں آئی ایس آئی ملوث تھی۔

رپورٹ کے مطابق اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ 2011 میں دہلی ہائی کورٹ کے باہر ہونے والے بم دھماکے سے قبل اس نے وہاں کا جائزہ لیا تھا۔ تاہم وہ دھماکے میں ملوث تھا یا نہیں اس کے بارے میں تفتیش جاری ہے۔

رپورٹس کے مطابق محمد اشرف علی نے دہلی پولیس ہیڈ کوارٹرز کا بھی کئی بار جائزہ لیا تھا۔ البتہ پولیس احاطے کے باہر کسی کو رکنے نہیں دیتی تھی جس کی وجہ سے وہ زیادہ معلومات حاصل نہیں کر سکا۔ اس وقت پولیس اس سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ کیا وہ دہلی میں کسی بم دھماکے میں ملوث تھا۔

’لوگ پیر مولانا کہتے تھے‘

پولیس کے اسپیشل سیل کے ڈپٹی کمشنر پرمود کشواہا کے مطابق گرفتاری کے وقت پولیس نے اس کے قبضے سے اے کے 47 رائفل، 60 راؤنڈ کے ساتھ دو میگزین، ایک ہینڈ گرنیڈ، دو پستول اور 50 کارتوس برآمد کیے۔

پرمود کشواہا نے دعوی کیا کہ وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سمیت کئی مقامات پر متعدد دہشت گرد سرمیوں میں ملوث تھا اور یہ کہ اس سے قبل وہ اجمیر، کشمیر اور دیگر شہروں میں رہ رہا تھا۔ ان کے بقول دہلی میں اس کا قیام شاستری نگر اور لکشمی نگر دونوں مقامات پر تھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اسے لوگ پیر مولانا کہتے تھے اور ا س نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے حکمت شروع کی تھی۔

اسپیشل سیل کے مطابق محمد اشرف کے قبضے سے برآمد جعلی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے احمد نوری کے نام سے شناختی کارڈ بنوایا ہے۔ وہ شاستری نگر علاقے کے آرام پارک میں رہ رہا تھا۔

’جعلی شناختی کارڈ بنایا، مقامی خاتون سے شادی کی‘

پرمود کشواہا نے کہا کہ محمد اشرف نے بہار میں جعلی شناختی کارڈ بنوایا اور ضلع غازی آباد کے ویشالی میں ایک خاتون سے شادی کی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی سرحد سے سلی گوری کے راستے بھارت میں داخل ہوا ہوگا۔

’انڈیا ٹوڈے‘ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ تفتیش کے دوران پولیس کو معلوم ہوا کہ اشرف بھارت میں داخل ہونے کے بعد اجمیر گیا اور وہاں اس نے ایک مقامی مسجد سے وابستہ مولوی سے دوستی کی۔

ذرائع کے مطابق وہ 2006 میں مذکورہ مولوی کے ساتھ دہلی آیا۔ اس نے پرانی دہلی میں مولوی کے ایک رشتے دار کی فیکٹری کے قریب رہائش اختیار کی۔

’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق حکام کا دعوی کہ محمد اشرف علی کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی جانب سے رقوم ملنی شروع ہوئیں۔ یہ رقوم مذکورہ مولوی کے رشتے دار کے شناختی کارڈ کے توسط سے مل رہی تھیں اور رقوم بھیجنے والے آئی ایس آئی ہینڈلر کا نام ناصر تھا۔

بھارت میں مبینہ ہینڈلر سے مسلسل رابطہ

ذرائع کے مطابق بھارت میں قیام کے دوران وہ مختلف مواصلاتی ذرائع کی مدد سے ناصر سے مسلسل رابطے میں رہا۔

پولیس نے اس کی تصدیق کی ہے کہ محمد اشرف علی کا پاسپورٹ 2014 میں بنا تھا۔ اس نے پانچ چھ بار اپنا پتا تبدیل کیا اور وہ ناصر سے رابطہ رکھنے کے لیے متعدد سوشل میڈیا ایپس کا استعمال کرتا رہا۔

ایک ماہ قبل 14 ستمبر کو اسپیشل سیل نے مبینہ طور پر ایک دہشت گرد گروہ کو بے نقاب کیا تھا اور سات مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا تھا جن میں سے پولیس کے مطابق دو لوگوں کو آئی ایس آئی نے ٹریننگ دی تھی۔

خیال رہے کہ اس وقت بھی پولیس نے کہا تھا کہ گرفتار شدگان دہلی اور دوسرے مقامات پر تہواروں کے موسم میں دہشت گرد حملوں کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں