فوجی افسران کو بغاوت پر اکسانے کے معاملے میں سابق جرنیل کے بیٹے کو پانچ برس قید

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو ملازمت میں توسیع پر تنقیدی خط لکھنے اور اسے دیگر فوجی جرنیلوں کو بھی بھیجنے کے معاملے میں پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر جنرل کے بیٹے کو پانچ برس قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔

عسکری ذرائع کے مطابق ملزم حسن عسکری کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی گوجرانوالہ چھاؤنی میں کی گئی۔ ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں یہ سزا فوجی افسران کو بغاوت پر اکسانے کے جرم پر دی گئی ہے۔

سزا سنائے جانے کے بعد مجرم حسن عسکری کو ساہیوال میں واقع ہائی سکیورٹی جیل منتقل کیا گیا ہے۔

فوجی عدالت سے انھیں یہ سزا جولائی 2021 میں سنائی گئی تھی لیکن اس بارے میں تفصیلات حسن عسکری کے والد کی جانب سے حال ہی میں لاہور ہائیکورٹ پنڈی بینچ میں اپنے بیٹے کی ساہیوال جیل سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں منتقلی کی درخواست میں سامنے آئی ہیں۔

اس درخواست پر عدالت نے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل سمیت تمام متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔

حسن عسکری پر الزام تھا کہ انھوں نے گذشتہ برس ستمبر میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو خط تحریر کیا تھا جس میں مبینہ طور پر اُن کی مدت ملازمت میں توسیع ملنے اور فوج کی پالیسوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے کو کہا تھا۔ انھوں نے اس خط کی نقول پاکستانی فوج کے متعدد جرنیلوں کو بھی بھیجی تھیں۔

مجرم حسن عسکری کے والد میجر جنرل ریٹائرڈ ظفر مہدی عسکری کی جانب سے اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ انھیں معلوم ہوا ہے کہ ان کے بیٹے پر مقدمہ گوجرانوالہ چھاؤنی میں چلا ہے جہاں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے انھیں مجرم گردانتے ہوئے پانچ سال قید کی سزا سنائی ہے۔

درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ حسن عسکری کو سزا سنائے جانے کے بعد ان کے اہلخانہ کو کئی ہفتے تک اس بارے میں اندھیرے میں رکھا گیا جبکہ درخواست گزار کی بیٹی نے متعدد بار جنرل ہیڈکوارٹرز سے بھی رابطہ کیا لیکن وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

درخواست گزار کے مطابق اس کے علاوہ جیگ برانچ میں تعینات بریگیڈیئر وسیم سے بھی رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ حسن عسکری کو ساہیوال کی ہائی سکیورٹی جیل میں رکھا گیا ہے اور جیل حکام نے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود صرف ایک مرتبہ انھیں حسن عسکری سے ملنے کی اجازت دی ہے۔

درخواست میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ حسن عسکری کو اپنے وکیل سے ملنے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی۔ تاہم عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ مجرم کو اپنا وکیل کرنے کی بھی اجازت دی گئی تھی جو ان کے اہل خانہ نے خود مقرر کیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے اہل خانہ ان سے اس ’گیسٹ ہاؤس‘ میں بھی ملتے رہے جہاں انھیں رکھا گیا تھا۔

اس درخواست میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ درخواست گزار نے اگست میں انسانی حقوق کی وزارت کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چونکہ حسن عسکری کے والدین اسلام آباد میں رہتے ہیں اس لیے مجرم کو قریبی جیل یعنی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کر دیا جائے کیونکہ مجرم کے والدین بوڑھے ہو چکے ہیں جبکہ مجرم کی والدہ شدید بیمار ہیں اور ہفتے میں تین دن ان کے ڈائلیسز ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ درخواست گزار یعنی میجر جنرل ریٹائرڈ ظفر مہدی نے کہا ہے کہ محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کے سربراہ کو اس بارے میں خط لکھا گیا لیکن وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ درخواست گزار کا موقف ہے کہ محکمہ جیل خانہ جات کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی قیدی کو صوبے کی حدود میں واقع کسی بھی جیل میں منتقل کر سکتے ہیں۔

بی بی سی کے رابطہ کرنے پر عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کیس میں آئین پاکستان کی روح کے مطابق تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے جو ایک مقدمے کو منصفانہ طور پر چلانے کے لیے ضروری ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ معاملہ ابھی اعلیٰ عدلیہ کے سامنے زیرسماعت بھی ہے اس لیے فی الحال اس معاملے پر زیادہ بات مناسب نہیں ہے۔

مقدمے کا پس منظر

پیشے کے لحاظ سے کمپیوٹر انجینیئر حسن عسکری پر الزام تھا کہ انھوں نے گذشتہ برس ستمبر میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو خط تحریر کیا تھا جس میں مبینہ طور پر اُن کی مدت ملازمت میں توسیع ملنے اور فوج کی پالیسوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے کو کہا تھا۔

اس خط کی کاپیاں فوج میں حاضر سروس ٹو اور تھری سٹار جنرلز کو بھی بھیجی گئی تھیں۔

حسن عسکری کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 131 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جو فوج کے کسی بھی افسر یا اہلکار کو بغاوت پر اُکسانے کے زمرے میں آتا ہے۔

اس حوالے سے درج ہونے والی ایف آئی آر میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ملزم حسن عسکری نے اپنے خطوط میں فوج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف غیر قانونی ریمارکس بھی دیے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم کا تعلق ملک دشمن عناصر سے ہے جو پاکستانی فوج میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں۔

رواں برس جنوری میں یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں آیا تھا تو عدالت نے بغاوت کے مقدمے کی سماعت اِن کیمرہ کرنے کا حکم دیا تھا اور پھر کورٹ مارشل رکوانے سے متعلق درخواست یہ کہہ کر نمٹا دی تھی کہ اس کا فیصلہ متعلقہ فوجی حکام ہی کریں گے کہ آیا سویلین کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے یا نہیں۔

حسن عسکری کے والد نے اپنی درخواست میں عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ اسلام آباد پولیس اور سادہ کپڑوں میں ملبوس چند سکیورٹی اہلکار، جن کے بارے میں شبہ ہے کہ ان کا تعلق ملٹری انٹیلیجنس سے ہے، اُن کے گھر پر آئے اور ان کے بیٹے کو گرفتار کر کے لے گئے۔

ان کے مطابق ان اہلکاروں کی طرف سے حسن عسکری کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کے دو روز کے بعد ان کے اہلخانہ کو ڈاک کے ذریعے ایک دستاویز ملی جو ایک ایف آئی آر تھی۔ ان کے مطابق یہ ایف آئی آر خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی طرف سے ان کے گھر پر چھاپہ مارنے سے ایک روز قبل تھانہ شالیمار میں درج کروائی گئی تھی۔

ان کے مطابق دوسری دستاویز انھیں اگلے روز ملی جس میں اس بات کا ذکر کیا گیا تھا کہ اسلام آباد کے ایک مقامی مجسٹریٹ نے ملزم کو پاکستان آرمی کے کمانڈنگ افسر کے حوالے کر دیا ہے تاہم اس کمانڈنگ افسر کے نام کا کہیں بھی ذکر نہیں تھا۔

سماعت کے دوران پاکستان کی فوج کے ایڈجوٹینٹ جنرل نے حسن عسکری کو تحویل میں لیے جانے کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان پر ’پاکستانی فوج میں بغاوت اور فوجی افسران کو اپنی کمانڈ کے خلاف اُکسانے جیسے سنگین الزامات ہیں جن کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘

جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف میجر جنرل ریٹائرڈ ظفر مہدی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں انٹراکورٹ اپیل بھی دائر کر رکھی ہے جو ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ131 کیا ہے؟

پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ میجر جنرل کے بیٹے کے خلاف جو مقدمہ درج کیا گیا تھا وہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 131 کے تحت تھا۔ تعزیرات پاکستان کی اس دفعہ کے تحت اگر کسی شخص پر مسلح افواج کے کسی اہلکار کو بغاوت پر اُکسانے کا جرم ثابت ہو جائے تو اس کی سزا موت ہے۔ اس کے علاوہ اس قانون کے تحت مجرم کو عمر قید یا دس سال قید اور جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔

ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کا کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔

آرمی ایکٹ کا سیکشن 31 ڈی

آرمی ایکٹ کے سیکشن 31 ڈی کے تحت صرف کوئی فوجی اہلکار یا افسر ایسے مقدمے میں ملوث پایا جائے تو اس کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے جبکہ سویلین یعنی عام شہری پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اس کے برعکس آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی کے تحت کسی بھی سویلین کا معاملہ 31 ڈی میں لا کر اس کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے پہلے اس سویلین کے خلاف کسی تھانے میں مقدمہ کے اندارج اور مجسٹریٹ کی اجازت ضروری ہے۔

آرمی ایکٹ میں اس شق کو پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے متعارف کروایا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں