سپریم کورٹ نے سانحہ اے پی ایس کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا

اسلام آباد ( ڈیلی اردو) سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا، حکمنامہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے تحریر کیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری کریگی، وزیراعظم پاکستان اپنے دستخط سے تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔تحریری حکمنامے میں سپریم کورٹ کا 20 اکتوبر کا حکمنامہ بھی شامل کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی زیر سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سانحہ اے پی ایس کے از خود نوٹس کی سماعت کی، عدالت نے وزیر اعظم کو طلب کیا جس پر وزیر اعظم سپریم کورٹ پیش ہوئے اور روسٹرم پر آئے۔

عدالت نے وزیر اعظم سے کہا کہ آپ ہمارے وزیر اعظم ہیں اور قابل احترام ہیں، لیکن اب تک حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں، ہمیں آپ کی پالیسی سے کوئی غرض نہیں، جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ مسٹر پرائم منسٹر ہم کوئی چھوٹا ملک نہیں، ہماری آرمی دنیا کی چھٹی بڑی آرمی ہے، آپ مجرمان کو ٹیبل پر مذاکرات کیلئے لے آئے؟، کیا پھر سرنڈڈ ڈاکیومنٹ سائن کرنے جا رہے ہیں، تسلیم کریں کہ سانحہ اے پی ایس میں ہماری انٹیلی جنس ناکام ہوئی، کیا کسی انٹیلی جنس ادارے کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں سانحہ اے پی ایس کس نے ہونے دیا، رپورٹ کے مطابق بچے آسان ہدف تھے مگر ان کو بچانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں تھے، آسان ہدف کو تحفظ نہ دینا بڑی ناکامی ہے۔

وزیر اعظم نے عدالت میں کہا کہ مجھے موقع دیں میں وضاحت کرتا ہوں، ہمارا نائن الیون کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، صدر جنرل پرویز مشرف نے دباؤ میں آکر جنگ شروع کی، میں نے امریکی جنگ میں کودنے کی مخالف کی تھی، اس جنگ میں ہم نے 80 ہزار قربانیاں دیں، سانحہ اے پی ایس کے وقت ہماری مرکز میں حکومت نہیں تھی، صوبے میں حکومت تھی، ہم نے شہداء کے لواحقین کیلئے ہر ممکن کام کیا۔ میں خود پشاور پہنچا، ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی، والدین اس وقت سکتے کی حالت میں تھے۔جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم صاحب! یہاں وہاں کی باتیں نہ کریں مدعا پر رہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ والدین کو مراعات نہیں ان کے بچے چاہئے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب تو آپ اقتدار میں ہیں، آپ نے کیا کیا، 7 سال ہو گئے ہیں، کمیشن بنا چکے ہیں، رپورٹ آ چکی ہے، 20 اکتوبر کو ہمارا حکم تھا کہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بتایا ہے کہ اس وقت کے عہدیداران پر کرمنل نہیں، اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ پتہ لگایا جائے کہ 80 ہزار جانوں کے نقصان کا ذمہ دار کون ہے، یہ بھی پتہ لگایا جانا چاہئے کہ 400 سے زائد ڈرون حملوں کا ذمہ دار کون ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ وزیر اعظم ہیں، ان باتوں کا آپ کو علم ہونا چاہئے۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ جمہوریت میں اخلاقی ذمہ داریوں میں غفلت پر استعفے دیے جاتے ہیں مگر یہاں کلچر کچھ اور ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ سانحے کے روز اگر اس وقت کے وزیر اعظم، آرمی چیف استعفیٰ دے دیتے تو بھی مسئلہ حل نہ ہوتا۔ جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ مستعفی ہو جاتے تو ان سے بہتر آ جاتے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیر اعظم سے کہا کہ ہم نے آخری آرڈر میں کچھ نام دیے تھے، اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ اعلیٰ سطح کمیٹی سے پوچھیں ان ناموں کا کیا کرنا ہے، ہم آپ سے یقین دہانی چاہتے ہیں کہ آپ کارروائی کریں گے، شہداء کے ورثاء کو تسلی ہو کہ عدالت اور حکومت سانحہ اے پی ایس کو بھولی نہیں، غیر جانبداری سے والدین کی جانب سے نامزد افراد سے تحقیقات تو ہوں؟۔

وزیراعظم نے عدالت کو ذمہ داروں، غفلت کے مرتکب افراد کیخلاف کارروائی کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ انصاف کی جو تحریک 25 سال قبل چلائی تھی آج بھی اس پر قائم ہوں، سپریم کورٹ نے 4 ہفتوں میں عملدرآمد رپورٹ طلب کرلی، عدالت نے حکم دیا کہ عملدرآمد رپورٹ وزیر اعظم کے دستخط سے جمع کرائی جائے، جس کی بھی غفلت ثابت ہو اس کیخلاف کارروائی کی جائے، وفاقی حکومت شہداء کے والدین کا مؤقف بھی سنے۔

عدالت نے وزیر اعظم سے استفسار کیا کہ وزیراعظم صاحب! آپ متاثرہ بچوں کے والدین سے ملے؟، وزیر اعظم نے کہا کہ میں بچوں کے والدین سے کئی بار ملا ہوں، عدالت نے ہدایت کی کہ آپ ان کو پرسہ دیں، ان کی تسلی کرائیں، شکایات دور کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں