بھارت میں گردواروں نے بھی نمازِ جمعہ کیلئے دروازے کھول دیے

کابل (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) ایک ہندو تاجر کے بعد اب گردواروں نے بھی مسلمانوں کو اپنے ہاں جمعے کی نماز پڑھنے کی پیش کش کی ہے۔ بعض ہندو تنظیمیں پچھلے کئی ہفتوں سے گروگرام میں میدانوں میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔

ملکی دارالحکومت دہلی کے نواح میں واقع ہریانہ کا گروگرام گزشتہ کئی ہفتوں سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ وہاں متعدد ملٹی نیشنل اور قومی کمپنیوں بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ اداروں کے دفاتر اور پیداواری یونٹ واقع ہیں۔ مساجد کی کمی کی وجہ سے مسلمان مقامی انتظامیہ کی اجازت سے سرکاری ملکیت والے میدانوں میں جمعے کی نماز پڑھتے ہیں۔ لیکن ستمبر کے مہینے سے بعض مقامی اور غیر مقامی شدت پسند ہندو تنظیموں نے اس کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کر رکھی ہے۔

’کسی صورت میں نماز نہیں ہونے دیں گے‘

انتظامیہ کی طرف سے اجازت یافتہ مقامات پر مسلمان جب نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، تو شدت پسند ہندو تنظیموں کے کارکن مسلمانوں کی عبادت میں خلل ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران جے شری رام کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں اور تقریریں کرنے کے علاوہ ڈھول بھی نجائے جاتے ہیں۔

انتظامیہ نے مقامی مسلمانوں کو پہلے 38 کھلے مقامات پر نماز جمعہ کی اجازت دے رکھی تھی لیکن ہندو تنظیموں کے اعتراضات اور احتجاج کے بعد ان میں سے آٹھ مقامات پر نماز کی ادائیگی روک دی گئی۔ لیکن مظاہرین کا کہنا ہے کہ میدانوں اور پارکوں میں نماز جمعہ پڑھے جانے پرمکمل پابندی عائد ہونے تک وہ احتجاج جاری رکھیں گے۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے اس طرح نماز پڑھے جانے کو روکنے کے لیے ‘کوئی بھی قدم اٹھانے‘ کا اعلان بھی کر دیا تھا۔

دو ہفتے قبل ان ہندو تنظیموں نے نماز کی جگہ پر ‘گوردھن پوجا‘ کی تھی۔ اس میں گائے کے گوبر کی پوجا کی جاتی ہے۔ اس موقع پر بی جے پی کے رہنما کپل مشرا بھی موجود تھے، جن پر دہلی کے فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ پچھلے ہفتے جمعہ سے ایک روز قبل نماز کی جگہ پر گوبر کے اپلے پھیلا دیے گئے تھے اور پھر وہاں ایک والی بال کورٹ بنانے کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں