شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے باعث افغانستان جانے والوں کی واپسی شروع

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے شمالی وزیرستان میں جون 2014 میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع ہونے کے بعد سرحد پار افغانستان چلے جانے والے افراد کی واپسی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔

حکام کے مطابق سرحدی صوبے خوست میں رہائش پذیر قبائلیوں کی واپسی کا سلسلہ شمالی وزیرستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی گزرگاہ غلام خان کے راستے سے شروع ہوا ہے۔

لگ بھگ 30 خاندان ہفتے کو سرحدی گزرگاہ غلام خان کے راستے واپس پاکستان پہنچے ہیں۔

شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر شاہد علی خان نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ پہلے روز 30 خاندانوں پر مشتمل قافلہ غلام خان گزرگاہ کے راستے سے آیا ہے جب کہ روزانہ کی بنیاد پر 40 سے 50 خاندان واپس آ رہے ہیں جنہیں بنوں پہنچایا جا رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان نقل مکانی کرنے والے تمام افراد کو واپس لایا جا رہا ہے جنہیں بنوں، لکی مروت، پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم عارضی رہائش گاہوں میں آباد کیا جائے گا۔

شاہد علی خان کے بقول جن افراد کے علاقے دہشت گردی سے کلیئر ہیں، اُنہیں اُن کے آبائی علاقوں کو بھجوایا جائے گا۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر حفیظ اللہ داوڑ نے میڈیا کو بتایا کہ غلام خان پر ایک مکمل اسپتال کی طرز پر تمام انتظامات کیے گئے ہیں تاکہ ان لوگوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے خیبر پختونخوا کے ترجمان نے بتایا ہے کہ افغانستان سے انے والے ہر رجسٹرڈ اور تصدیق شدہ خاندان کو ہر ماہ 12 ہزار کیش جب کہ آٹھ ہزار راشن الاؤنس کی مد میں دیا جائے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان جانے والے قبائلیوں کے کچھ علاقوں میں اب بھی دہشت گرد موجود ہیں۔ لہذٰا اسی وجہ سے انہیں دیگر علاقوں میں آباد کیا جا رہا ہے۔

شمالی وزیرستان سے رُکن صوبائی اسمبلی میر کلام وزیر نے افغانستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی شروع ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وطن واپسی سے ان لوگوں کی بہت سے مشکلات حل ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہ تحصیل دتہ خیل میں زندگی گزارنے کی سہولیات نہ ہونے کے باعث ان لوگوں کو مختلف علاقوں میں جانے اور وہاں اپنی مرضی کے مطابق رہائش اختیار کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

میر کلام وزیر نے حکومت کے اس فیصلے کو بھی خوش آئند قرار دیا کہ وطن واپس آنے والوں کو اپنی مرضی کے مطابق خیبر پختونخوا میں کسی بھی جگہ رہائش اختیار کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے وائس آف امریکہ کے رابطے پر افغانستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی شروع ہونے کی تصدیق کی مگر انہوں نے ان لوگوں کو آبائی علاقوں میں آباد کرنے کے حوالے سے تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

پس منظر

جون 2014 میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کے آغاز پر شمالی وزیرستان کے طول و عرض سے لاکھوں لوگوں نے نقل مکانی کر کے حکام کے بقول اس کارروائی کو نتیجہ خیز بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کارروائی کے نتیجے میں شمالی وزیرستان میں موجود عسکریت پسند فرار ہو کر افغانستان چلے گئے تھے۔

خیبر پختونخوا کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے اعداد وشمار کے مطابق فوجی آپریشن کے باعث لگ بھگ 25 لاکھ افراد نے نقل مکانی کر کے شمالی وزیرستان سے ملحقہ بنوں، ہنگو اور لکی مروت کے علاوہ پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں عارضی سکونت اختیار کر لی تھی۔

اس دوران سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر کئی گھرانے سرحد پار کر کے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں چلے گئے تھے۔

سرکاری طور پر آٹھ ہزار خاندانوں کی افغانستان منتقلی کی تصدیق کی گئی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں