توہین پرچم کا الزام: بھارتی شہر کپور تھلہ میں سکھوں کے تشدد سے ایک اور شخص ہلاک

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) بھارتی ریاست پنجاب کے شہر کپور تھلہ کے قریب دیہات میں سکھوں کے ایک ہجوم نے ایک گرودوارے میں مبینہ طور پر اپنے مذہبی پرچم کی بے حرمتی کرنے کے الزام میں ایک شخص کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا ہے۔

https://twitter.com/Panther7112/status/1472469480903110656?t=RVKzZYZ9sn2eL1lg7l02jw&s=19

یہ واقعہ اتوار کو پیش آیا ہے اور اس سے ایک دن پہلے سنیچر کو سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل کے دربار صاحب میں توہین مذہب کے الزام میں ایک شخص کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

https://twitter.com/amaanbali/status/1472200490939138048?t=wgZ97UsScweHKwSstMMdBA&s=19

توہین مذہب کے یہ مبینہ واقعات ایک ایسے وقت میں رونما ہوئے ہیں جب پنجاب میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان واقعات کی سبھی سیاسی جماعتوں نے شدید مذمت کی ہے اور ان کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم بھی قائم کر دی گئی ہے۔ لیکن کسی بھی رہنما نے توہین مذہب کے ملزموں کو موقع پر ہی ہجوم کی جانب سے قتل کیے جانے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے۔

2015 میں بھی پنجاب کے فرید کوٹ ضلع میں توہین مذہب کے ایک مبینہ واقعے کے خلاف احتجاج کے دوران دو افراد پولیس فائرنگ میں مارے گئے تھے۔

یہ واقعہ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں طول پکڑ گیا۔ ریاست کی سیاست میں اس کی گونج اب بھی سنائی دیتی ہے۔ پنجاب کی اپوزیشن پارٹی اکالی دل نے حکمراں کانگریس پارٹی پر الزام لگایا ہے کہ وہ گولڈن ٹیمپل کے واقعے پر سیاست کر رہی ہے اور ’اس واقعے کے اصل ملزموں کو پکڑنے سے دامن بچا رہی ہے۔‘

بعض اخبارات نے اپنے اداریوں میں ہجوم کے ہاتھوں تشدد پر سوال اٹھایا ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی کئی صحافیوں اور دانشوروں نے ملزموں کے اس بے رحمی سے قتل پر مکمل خاموشی پر افسوس ظاہر کیا ہے۔

نیوز پورٹل ‘دی وائر’ کے مدیر سدھارتھ ورد راجن نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ‘یہ نئے انڈیا کے گرتے ہوئے معیار کو اور بھی نیچے لے گیا ہے۔ پنجاب کی ایک بھی اہم جماعت کے رہنماؤں کے اندر اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ وہ توہین مذہب کے ایک مببینہ واقعہ پر ایک شخص کو مار مار کر ہلاک کرنے کی مذمت کر سکتے۔ یہ اگر ملک کی نئی حقیقت ہے تو پھر ہم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘

وکاس ٹھاکر نے ایک ٹویٹ میں پاکستان میں سیالکوٹ کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ‘سیالکوٹ اور پنجاب کے واقعے میں کیا فرق ہے؟ مذہب کی توہین کی سبھی کو مذمت کرنی چاہیے۔ لیکن ہجوم کے ہاتھوں قتل غیر قانونی اور دل ہلا دینے والا فعل ہے، اسے کسی بھی حالت میں جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔‘

یوگیندر یادو نے بھی اسی طرح کے پیغام میں لکھا ہے کہ وجہ کچھ بھی ہو ہجوم کی جانب سے تشدد کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔

انھوں نے لکھا ’ہجوم کو پولیس، منصف اور سزا دینے والا بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘

اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ’پنجاب کی حکومت اور سیاسی رہنما اس واقعے کے بارے میں لوگوں کے مشتعل جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی فوری کوشش کریں ورنہ یہ ریاستی اسمبلی کے انتخابت پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

’اگر انھوں نے مصلحت آمیز خاموشی نہیں توڑی اور اس معاملے کو حل کرنے میں اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی تو یہ معاملہ دوسرے سبھی اہم سوالوں کو بھی نگل جائے گا۔‘

فی الحال ریاست کی کانگریس حکومت ان واقعات کے بعد بہت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔ انتخابات میں اب محض چند ہفتے باقی ہیں اور اس جذباتی معاملے پر معمولی سی بھی سیاسی غلطی کسی بھی جماعت کو بھاری پڑ سکتی ہے۔ اس مرحلے پر اس بات کا امکان کم ہے کہ کوئی جماعت یا رہنما ہجوم کے ہاتھوں قتل کے خلاف کوئی آواز اٹھائے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ پنجاب کے انتخابات میں یہ معاملہ ایک اہم موضوع کے طور پر غالب رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں