پاکستان: کرپان کا استعمال لائسنس سے مشروط کرنے کے فیصلے پر سکھ برادری مایوس

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پشاور کی سکھ برادری کی جانب سے اکتوبر 2020 میں چاروں صوبوں کے ہائی کورٹ میں ایک درخواست جمع کروائی گئی، جس کا مقصد سکھوں کے پانچویں مذہبی ککار ’کرپان‘ کو احاطہ عدالت سمیت تمام سرکاری اداروں میں ساتھ رکھنے کی اجازت طلب کرنا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ نے بدھ 22 دسمبر 2021 کو اس مقدمے سے متعلق احکامات جاری کیے ہیں جن کے مطابق 2012 کی ہتھیاروں کی پالیسی کے تناظر میں کرپان رکھنے کو لائسنس سے مشروط کر دیا گیا ہے، عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ کرپان کا بھی لائسنس جاری کیا جائے۔

کرپان دراصل تین تا بارہ انچ لوہے کا کند خنجر ہوتا ہے۔ کرپان لفظ فارسی اور بعض روایات کے مطابق ہندی سے نکلا ہے جس کے معنی رحم اور انصاف دینے کے ہیں۔

سکھ مذہب کے پانچ ککھوں میں کرپان کا پانچواں نمبر ہے، یعنی پانچ کاف میں بالترتیب کیس، کنگھا، کڑا، کچھیرا اور کرپان آتے ہیں۔

سکھ برادری کو یہ اوتار ان کے دسویں مذہبی پیشوا گُرو گوبند سنگھ کی طرف سے 1699 میں دیے گئے تب سے اب تک یہ سکھ دھرم کا لازم وملزوم جزو ہیں جو ہر سکھ مرد و عورت پر امرت پان (بلوغت کی عمر کے بعد بیعت کرنا) کے بعد فرض ہوجاتے ہیں۔

جس کے بعد زندگی کے تمام معاملات میں یہ پانچ ککار ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ سکھ مذہب میں کرپان کو ظلم کے خلاف بغاوت کی علامت کے طور پر رکھا جاتا ہے۔

انڈیا سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں کرپان کی قانونی حیثیت

انڈین قانون کے آرٹیکل 25 کے تحت سکھوں کو مذہبی آزادی دیتے ہوئے کرپان رکھنے کی اجازت دی گئی ہے، نہ صرف کرپان بلکہ سری صاب ( چھ فٹ لمبی تلوار ) بھی سکھ مذہب کے پیروکار اپنے ہمراہ آزادی کے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔

2003 میں یورپ کے ایئر پورٹ پر ایک سکھ خاندان کے سربراہ نے اس وقت احتجاج کیا جب انھیں کرپان ہٹانے کو کہا گیا۔

ایسے ہی دیگر کئی واقعات سامنے آنے کے بعد 2006 اور اس کے بعد سے ہی کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا سمیت یورپ کے ایئرپورٹوں اور پبلک مقامات پر سکھ برادری کو مذہبی ازادی کے تحت کرپان ہمراہ رکھنے کی قانونی اجازت دے دی گئی۔

کیا خیبر پختونخوا کی سکھ برادری بھی کرپان کو آزادانہ طور پر رکھ سکتی ہے؟

پشاور میں آباد سکھ کہتے ہیں کہ وہ ملائشیا کی پارلیمنٹ اور دنیا کے مختلف ممالک میں کرپان آزادانہ پہن کر آتے جاتے رہے ہیں۔

پشاور میں سکھوں کے مذہبی سکالر باباجی گروپال اس بارے میں کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں امن وامان کی صورتحال بگڑنے کے بعد ان کی کمیونٹی کو کرپان ہمراہ رکھنے کے حوالے سے مشکلات پیش آنے لگیں۔ ان کے مطابق اب کرپان کو وہ حکومتی اداروں میں آزادی کے ساتھ نہیں لے جا سکتے اور اس کی وجہ ہے کہ اسے خنجر سمجھ کر نقصان پہنچانے کا آلہ سمجھا جا سکتا ہے۔

ان کے مطابق یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کرپان صرف مذہبی علامت ہی نہیں بلکہ ان کا مذہبی رکن ہے جس سے کسی بھی قسم کی پرتشدد کارروائی یا جرم کرنے کا سوچنا بھی سکھوں کے لیے گناہ کبیرہ کے مترادف ہے۔

’میرے آباؤ اجداد کی بڑی تعداد نے اپنی زندگیاں سابق فاٹا میں برطانوی راج کے نافذ فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (FCR) کے قانون تلے گزاریں جو 1848 سے رائج تھا، جہاں کسی بھی وفاقی یا صوبائی حکومت حتی کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی بھی دائرہ اختیار متعین نہیں تھا اب تک نہ صرف قبائلی اضلاع بلکہ پاکستان بھر میں کہیں بھی کرپان کو آلہ کار بنا کر جرم یا تشدد کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔‘

بابا گروپال نے بی بی سی اردو سے خصوصی گفتگو میں کرپان کی مذہبی حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ احاطہ عدالت میں ساتھ لے جانے کی اجازت نہ ملنے پر ہم اپنے مقدمات سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔‘

اس کی مثال وہ پشاور میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم سکھ رہنما چرن جیت سنگھ کے قتل کے کیس سے دیتے ہیں، اس کیس کو اہل خانہ نے احاطہ عدالت میں ہر بار کرپان اتروائے جانے کے سبب چھوڑ دیا تھا۔

گروپال سنگھ کہتے ہیں اپنی خواتین کو زچگی کے لیے ہسپتال لے جانے کی بجائے وہ گھر پر ہی بچے کی پیدائش کو اسی لیے ترجیح دیتے ہیں کہ لیبر رومز میں کرپان کے ساتھ داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی جبکہ زندگی کے اس مشکل مرحلے میں ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ بطور مذہبی عقیدت کرپان حفاظت کے طور پران کے ساتھ ہی ہو۔

رنجیت سنگھ پاکستان کی بڑی مذہبی وسیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام ف سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اس وقت جمعیت علماء اسلام کی اقلیتی نشست پرخیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کوبتایا کہ انھیں بھی کرپان اتار کر ہی ایوان میں داخلے کی اجازت ملتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس دیرینہ مسئلے کے حوالے سے وہ بارہا اسمبلی فلور پر آواز اٹھا چکے لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔

پشاور کی سکھ سنگت اس معاملے پر کہتی ہے کہ ’دس سال قبل پاکستان آرمی کے ایک سکھ میجر ہرچرند سنگھ نے سوات میں آپریشن راست اور وزیرستان کے آپریشن ضرب عضب میں حصہ لیا تھا، سکھ افسر کو پانچوں ککار کا تحفظ دینے کے لیے باقاعدہ رعایت دی گئی تھی مگر فوج کے باہر رکن اسمبلی کو کرپان رکھنے کی اجازت نہیں تو 35 ہزار عام سکھوں کا خدا ہی حافظ ہے۔‘

’پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر سکھ برادی کا ردعمل؟

عدالتی فیصلے پر سکھ برادری کچھ خاص مطمئن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کرپان ان کے مذہب کے ساتھ ساتھ جسم کا بھی لازمی جزو ہے جسے اسلحہ کے ساتھ جوڑنے سے ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوں گے۔

ان کے بقول ’سکھ برادری دنیا بھر میں پرامن قوم ہے جس نے آج تک کرپان کو کسی بھی جاندار کے قتل کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا۔ کرپان کا لائسنس سکھ برادری کے لیے آسانی کی بجائے مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ ‘

سکھ برادری ان تحفظات کا اظہار بھی کر رہی ہے کہ لائسنس پرمٹ، منسوخی و اجراء فیس اور دیگر مختلف قسم کے قوانین بھگتنے پڑیں گے۔ سکھ برادری نے عدالت عالیہ سے درخواست ہے کہ اس فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ وہ توقع کر رہے ہیں کہ جس طرح اقلیتی برادری کی تعلیم اور ملازمت کوٹہ میں اضافہ کرتے ہوئے رواداری کا ثبوت دیا گیا ہے ویسے ہی کرپان کے حوالے سے بھی قانون سازی کی جائے۔

’اس سے دنیا بھر سے گرونانک کی پوِتر دھرتی پاکستان میں یاترا کے لیے آنے والے لاکھوں سکھ یاتری یہاں سے امن و محبت ، آزادی و رواداری کا پیغام لے کر جائیں گے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں