ایران سے یمن میں ہتھیاروں کی مبینہ اسمگلنگ، یو این رپورٹ

نیو یارک (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈبلیو ایس جے) ایران مبینہ طور پر یمن کو ہتھیار اسمگل کر رہا ہے اور حالیہ مہینوں میں بحیرہ عرب میں متعدد کشتیوں سے ضبط کیے گئے ہزاروں ہتھیار اقوام متحدہ کے ماہرین کی رائے میں ممکنہ طور پر ایک ہی ایرانی بندرگاہ سے بھیجے گئے تھے۔

واشنگٹن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق بحیرہ عرب میں جن ہزاروں ہتھیاروں کو حال ہی میں قبضے میں لیا گیا، ان کا ممکنہ طور پر ایران کی ایک ہی بندرگاہ سے روانہ کیا جانا اس امر کا ثبوت ہے کہ ایران جنگ زدہ یمن کے علاوہ دنیا کے دیگر خطوں کو بھی ہتھیار اسمگل کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی خفیہ رپور‍‌ٹ

وال سٹریٹ جرنل نے اپنی ہفتہ آٹھ جنوری کی اشاعت میں لکھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے یمن کے تنازعے سے متعلق ماہرین کے ایک پینل نے ابھی حال ہی میں اپنی ایک خفیہ رپورٹ کونسل کو پیش کی۔

اس رپورٹ میں مبینہ طور پر کہا گیا ہے کہ روس، چین اور خود ایران ہی میں تیار کردہ ہتھیاروں کو ایران سے یمن اسمگل کرنے کے لیے مختلف مراحل میں سمندری کشتیوں اور زمینی راستوں دونوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اس جریدے کے مطابق امریکی بحری دستوں نے حالیہ مہینوں میں ایسے ہزاروں ہتھیار اپنے قبضے میں لے لیے، جن میں راکٹ لانچر، مشین گنیں اور سنائپر رائفلیں بھی شامل تھیں۔

ایران کی بندرگاہ جاسک

وال سٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کے ماہرین نے اپنی اس رپورٹ میں کہا ہے کہ ان ہتھیاروں کو یمن پہنچانے کے لیے مال بردار کشتیوں نے اپنا سفر جنوب مشرقی ایران کی بندرگاہ جاسک سے شروع کیا تھا۔ اس امر کی تصدیق ان کشتیوں کے عملے کے ارکان سے کیے گئے انٹرویوز کے دوران بھی ہو گئی اور ان کشتیوں کے نیویگیشن آلات کے ریکارڈ سے بھی۔

جاسک ایران کا ایک ایسا چھوٹا سا بندرگاہی شہر ہے، جو صوبے ہرمزگان میں واقع ہے اور جس کی آبادی پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔

حوثیوں باغیوں اور تہران دونوں کی طرف سے انکار

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے لکھا ہے کہ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں کے نائب وزیر اطلاعات نے تردید کی ہے کہ ایران اپنے ہاں سے یمن میں کوئی ہتھیار اسمگل کر رہا ہے۔

اسی طرح ایرانی حکام نے بھی ایسی رپورٹوں اور دعووں کی تردید کی ہے کہ ایران نے یمن کو کسی بھی طرح کے ہتھیار فروخت یا ٹرانسپورٹ کیے۔ اقوام متحدہ کے دو ہزار پندرہ میں کیے گئے ایک فیصلے کے مطابق یمن کے حوثی باغیوں کو کسی بھی طرح کے ہتھیاروں کی فراہمی ممنوع ہے۔

یمنی جنگ کے المناک اعداد و شمار

یمن کی دو ہزار چودہ میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں اس ملک کی بین الااقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کی لڑائی ان شیعہ حوثی باغیوں سے ہو رہی ہے جنہین ایران کی حمایت حاصل ہے۔ یمنی جنگ میں حوثیوں کے مخالف دھڑے کو سعودی عرب اور کئی دیگر ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔

یمن میں دس ہزار بچے ہلاک یا معذور ہو چکے ہیں

سعودی عرب نے تو اپنی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جنگی کارروائیوں کے لیے ایک کئی ملکی عسکری اتحاد بھی قائم کر رکھا ہے، جس کی طرف سے ان ایران نواز باغیوں کے خلاف بار بار فضائی حملے بھی کیے جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق یمن کی جنگ میں اب تک براہ راست یا بالواسطہ طور پر تقریباﹰ پونے چار لاکھ انسان ہلاک ہو چکے ہیں اور ملک کی تقریباﹰ تیس ملین کی آبادی میں سے اسّی فیصد سے زائد شہریوں کو انسانی بنیادوں پر امداد کی اشد ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں