فوجداری قوانین میں ترامیم: پاکستانی فوج کو بدنام کرنے پر 2 سال قید، 5 لاکھ روپے جرمانہ تجویز

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان نے فوجداری مقدمات کا قانون بدلنے کی منظوری دے دی ہے۔

مجوزہ قانون کے مطابق ایف آئی آر کی ڈیجٹلائزیشن، ٹرائل کے طریقۂ کار، اپیل، الیکٹرانک و ڈیجیٹل ذرائع سے شواہد اکٹھا کرنے، فوجداری نظام میں بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ جدید آلات کے استعمال، پلی بارگین اور ویڈیو کو شواہد کے طور پر استعمال کرنا شامل ہیں۔

پاکستان پینل کوڈ میں ایک نئے سیکشن کے اضافے کے ذریعے فوج کو بدنام کرنے پر دو سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی تجویز بھی کی گئی ہے۔

وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت نے امریکہ اور برطانیہ طرز کا آزاد پراسیکیوشن سروس کا نیا قانون لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ فوجداری قوانین میں تبدیلی سے پولیس اور عدالتی نظام میں انقلابی تبدیلی آئے گی۔

وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ حکومت اس حوالے سے آرڈیننس نہیں لا رہی۔ اپوزیشن حکومت کا ساتھ دے۔اس سے عام آدمی کا فائدہ ہو گا۔

کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں فروغ نسیم نے 600 سے زیادہ نکات میں ترامیم پر بریفنگ دی جو آئندہ ہفتے منگل کے روز منظوری کے لیے کابینہ میں پیش ہوں گی اور بدھ کو پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں گی۔

وائس آف امریکہ کے پاس دستیاب اس کا ابتدائی ڈرافٹ 278 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898 میں تبدیلیوں کی تجاویز، پاکستان پینل کوڈ 1860 میں ترامیم کی تجاویز، قانون شہادت آرڈر 1984، دیگر کریمنل لاز، پاکستان پریزن رول 1978 میں ترامیم، رحم کی اپیل، دارالحکومت اسلام آباد میں کریمنل پراسیکیوشن سروس ایکٹ 2021 کا ڈرافٹ بل اور اسلام آباد میں فرانزک سائنس ایجنسی ایکٹ 2021 کے بارے میں تجاویز شامل ہیں۔

وزارتِ قانون کے مطابق کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں وزیرِ اعظم کو فوجداری نظام انصاف میں اصلاحات پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ حکومت ملک کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس نظام میں بڑی تبدیلیاں لے کر آ رہی ہے جس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر اتفاقِ رائے سے فیصلہ سازی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ قانون میں تبدیلی کے لیے بین الاقوامی سطح پر رائج طریقۂ کار کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔

نئے نظام میں ایف آئی آر کی ڈیجٹلائزیشن، ٹرائل کے طریقۂ کار، اپیل، الیکٹرانک و ڈیجیٹل ذرائع سے شواہد اکٹھا کرنے، فوجداری نظام میں بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ جدید آلات کا استعمال، پلی بارگین کے طریقۂ کار میں تبدیلی اور ویڈیو کو شواہد کے طور پر استعمال کرنا شامل ہیں۔

ترامیم کے مطابق تھانوں کو اسٹیشنری، ٹرانسپورٹ اور ضروری اخراجات کے فنڈز ملیں گے۔

عام جرائم کے مقدمات میں پانچ سال تک سزا کے لیے پلی بارگین ہو سکے گی۔ عام جرائم کی سزا پانچ سال سے کم ہو کر صرف چھ ماہ رہ جائے گی۔

تاہم قتل، زیادتی، دہشت گردی، غداری، سنگین مقدمات میں پلی بارگین نہیں ہوگی۔

مجوزہ ترامیم کے مطابق موبائل فوٹیجز، تصاویر اور آڈیو ریکارڈنگز کو بطور شہادت قبول کیا جا سکے گا۔ ماڈرن ڈیوائسز کو بھی بطور شہادت قبول کیا جائے گا جب کہ فرانزک لیبارٹری سے ٹیسٹ کی سہولت دی جائے گی۔

ایس ایچ او کیلئے گریجویٹ ہونا لازمی

مجوزہ ڈرافٹ کے مطابق سی آر پی سی کے سیکشن چار ایک پی کو تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس کے مطابق کسی بھی پولیس اسٹیشن کا ایس ایچ او کم سے کم سب انسپکٹر کے عہدے کا افسر ہو اور اس کی تعلیمی قابلیت کم از کم گریجویشن ہو گی۔

کم عمر بچوں کے لیے سکیشن 29 بی کو ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018 کے بعد سی آر پی سی سے اس سکیشن کو ختم کیا جاتا ہے۔

مجسٹریٹ سطح پر جرمانوں میں اضافہ

سیکشن 32 کے مطابق فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کو تین سال سزا اور 45 ہزار جرمانہ دینے تک کی اجازت تھی جسے تبدیل کرکے ایک لاکھ روپے جرمانہ اور پانچ سال تک سزا دینے کی اجازت تجویز کی گئی ہے۔

سکینڈ کلاس مجسٹریٹ کے پاس تین سال اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا کا اختیار ہوگا۔جب کہ تھرڈ کلاس مجسٹریٹ کو ایک سال سزا اور 25 ہزار تک جرمانے کرنے کا اختیار ہوگا۔

خواتین کی گرفتاری

سیکشن 46 میں تبدیلی کے بعد کسی خاتون کو گرفتار کرنے کے لیے کوئی مرد کسی خاتون کو چھو نہیں سکتا۔ اس مقصد کے لیے خاتون پولیس اہل کار کی ضرورت ہوگی تاہم اس بارے میں موقع کے حالات کو بھی دیکھا جائے گا جس میں کسی مشکل یا ہنگامی صورتِ حال میں رعایت دی جاسکتی ہے۔

گرفتار کرنے کے قواعد تبدیل

سیکشن 54 میں کسی بھی شخص کی گرفتاری سے متعلق بتایا گیا ہے کہ صرف شک کی بنیاد پر گرفتار کیے جانے کے فوری بعد پولیس افسر تھانے کے انچارج کو فوری آگاہ کرے گا اور اگر وہ مطمئن ہوا تو اس گرفتاری کو باقاعدہ طور پر تحریر کیا جائے گا۔

حکومت نے اس سیکشن میں مزید ترامیم تجویز کی ہیں جن کے مطابق سکیشن 54 اے بنایا گیا ہے جس کے مطابق گرفتار شخص کو اس کی گرفتاری کی وجوہات سے فوری طور پر آگاہ کیا جائے گا۔ گرفتار ہونے والے شخص کے اہلِ خانہ کو بتایا جائے گا۔ 24 گھنٹوں کے اندر گرفتار ہونے والے کو وکیل تک رسائی دی جائے گی۔ وکیل اور گرفتار ہونے والے شخص کی گفتگو کوئی نہیں سنے گا۔

سکیشن 54-بی کے مطابق پولیس افسر کسی شخص کو گرفتار کرنے سے قبل اپنی شناخت ظاہر کرنے کا پابند ہوگا اور گرفتار شخص کی گرفتاری کا دستاویز تیار ہوگا جس پر اس شخص کے خاندان یا پھر مقامی شخص کے دستخط ہوں گے۔

سیکشن 54-سی کے مطابق ہر ضلع میں ایک کنٹرول روم قائم کیا جائے گا جہاں نوٹس بورڈ پر گرفتار ہونے والے اور گرفتار کرنے والے افسر کے نام کا اندراج کیا جائے گا۔

سیکشن 54-ای کے مطابق پولیس افسر گرفتار ہونے والے شخص کو گرفتاری کی وجوہات اور ضمانت ہونے کی صورت میں ضمانت کے حق کے بارے میں آگاہ کرنے کا پابند ہوگا۔

سیکشن 54-ایف کے مطابق پولیس کے لیے لازم ہے کہ وہ گرفتار ہونے والے شخص کی طرف سے نامزد کردہ ایک شخص کو اس کی گرفتاری کے متعلق تمام معلومات فراہم کرے گا۔ یہ شخص قریبی رشتہ دار یا دوست ہوسکتا ہے۔

بعد میں مجسٹریٹ اس بارے میں اس شخص سے معلومات ملنے کی تصدیق کرسکتا ہے اور عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں متعلقہ پولیس افسر کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔

سیکشن 54 جی کے مطابق کسی بھی گرفتار ہونے والے شخص کا فوری طبی معائنہ میڈیکل افسر سے کرایا جائے، خاتون ہونے کی صورت میں خاتون میڈیکل افسر سے معائنہ ہوگا۔

شناختی دستاویزات بلاک

حکومت نے نئی ترامیم میں کسی اشتہاری شخص کی پراپرٹی کے ساتھ ساتھ اب شناختی کارڈ، پاسپورٹ، بینک اکاؤنٹس اور بینک کارڈز بلاک کرنے کی بھی تجویز دی ہے۔

سکیشن 88 میں اضافے کے بعد کسی اشتہاری شخص کے خلاف یہ تمام کارروائی ہو سکے گی اور سرنڈر کی صورت میں عدالتی احکامات پر شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات بحال کی جاسکتی ہیں۔

پریس آرڈیننس 1963 میں ترمیم

حکومت نے سی آر پی سی کے سیکشن 99 اے میں ترمیم کی تجویز دی ہے جس کے مطابق ماضی میں ویسٹ پاکستان پریس اینڈ پبلی کشن آرڈیننس کے مطابق مطبوعات اور اخبارات شامل تھے لیکن اب اسے پریس، نیوز پیپرز، نیوز ایجنسیز اینڈ بکس رجسٹریشن آرڈیننس 2002 کے ساتھ تبدیل کرنے کی تجویز ہے جس کے مطابق غداری میں ملوث ہونے اور قابل اعتراض مواد کو پکڑ کر اس کی تیاری کے مقام کے لیے سرچ وارنٹ جاری کیے جاسکیں گے۔

ریپ کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ لازمی قرار

موجودہ قانون میں سیکشن 156-سی کے اضافے کے بعد ریپ کے فوری بعد ڈی این اے ٹیسٹ کرانا لازمی ہوگا۔

یہ ٹیسٹ اگلے 72 گھنٹوں کے اندر ہوگا۔ ڈی این اے سیمپل کے حوالے سے تمام معاملات کو خفیہ رکھا جائے گا اور گریڈ 19 سے اوپر کا افسر اس بارے میں ریکارڈ کنٹرول میں رکھے گا۔

بچوں اور خواتین کو شاملِ تفتیش کرنے کے قواعد میں تبدیلی

تجویز کردہ ترامیم میں سیکشن 160 میں تبدیلی کی جارہی ہے جس کے مطابق 15 سال سے کم عمر بچے یا بچی اور 65 سال زائد العمر خاتون کو تھانے نہیں بلایا جا سکے گا اور کسی کیس میں ان سے تفتیش ضروری ہو گی تو ان کی رہائش گاہ پر ہی تفتیش ہوگی۔

آڈیو ویڈیو کے ذریعے گواہ کا بیان ریکارڈ

سی آر پی سی کے سیکشن 161 میں تبدیلی کے بعد کسی بھی کیس کے گواہان کے آڈیو ویڈیو بیان ریکارڈ کیے جاسکیں گے جو تفتیش کا حصہ ہوں گے۔ پولیس اہل کار اس ریکارڈ کو محفوظ رکھیں گے اور آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کو تحریری صورت میں بھی رکھا جائے گا۔

ماضی میں پولیس کی تحویل میں موجود دستاویزات تمام تر تحریری بنیاد پر تھیں لیکن اب آڈیو ویڈیو بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ ہوں گے۔ سیکشن 162 میں تبدیلی کے بعد تحریری بیانات کے ساتھ ساتھ آڈیو ویڈیو بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ بن سکیں گے۔

سکیشن 164 میں ترمیم کے بعد مجسٹریٹ کی عدالت میں کراس ایگزامنیشن بھی آڈیو ویڈیو ریکارڈ کی جاسکے گی۔

سکیشن 365- اے کے شامل کرنے سے سیشن عدالتوں کو بھی آڈیو ویڈیو میں تمام گواہان، ملزمان اور شکایت کنندہ کے بیانات و ثبوت ریکارڈ کرنے کی اجازت ہو گی۔

کسی گواہ کے موجود نہ ہونے کی صورت میں ویڈیو لنک کے ذریعے دیے گئے بیان کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنایا جا سکے گا تاہم اس کے لیے سخت پروٹوکول بنانے کا کہا گیا ہے۔ اس سکیشن کی مدد سے بیرون ملک مقیم شخص پاکستانی سفارت خانے کی مدد سے بھی اپنا بیان ریکارڈ کرا سکے گا۔

تفتیش کی تکمیل کا دورانیہ مقرر

پولیس کے خلاف کسی بھی کیس میں غیر ضروری تاخیر کا عمومی طور پر الزام عائد کیا جاتا ہے تاہم نئی ترامیم آنے کے بعد سیکشن 173 کو تبدیل کیا جا رہا ہے اور کیس درج ہونے کے 45 دن کے اندر پولیس افسر کو تفتیش مکمل کرنی ہو گی۔

اگر مقررہ 45 دن میں تفتیش مکمل نہیں کی جاتی تو تفتیشی افسر پراسیکیوٹر کو یہ مدت مکمل ہونے کے تین دن کے اندر ضمنی رپورٹ بھیجے گا۔

کیسز کے اندراج اور تفتیش مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوٹر کو اختیار حاصل ہو گا کہ وہ کسی اعتراض کی صورت میں پولیس کی تفتیش اسے واپس بھجوا سکتا ہے اور اسے کیس مضبوط بنانے کے لیے مزید شواہد لینے کا کہہ سکتا ہے۔

پراسیکیوٹر کی ہدایت پر پولیس افسر پابند ہوگا کہ وہ ان ہدایات پر عمل کرے اور عمل نہ کرنے کی صورت میں تحریری طور پر وجوہات سے آگاہ کرے۔

لفظ پاگل کو ذہنی خرابی سے بدل دیا گیا

کوڈ آف کریمنل پروسیجر میں مختلف مقامات پر ذہنی معذور شخص کو لونیٹک یا پاگل کہا گیا ہے، لیکن حالیہ ترامیم میں ایسے تمام سکیشنز میں لفظ پاگل کو ذہنی خرابی سے تبدیل کردیا گیا ہے۔

بریت اور جھوٹے کیسز پر ہرجانہ

نئی ترامیم میں سیکشن 245 میں اضافہ کیا گیا ہے جس کے مطابق کسی شخص کے بے گناہ ثابت ہونے کی صورت میں جج اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے درخواست دہندہ کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کرسکتا ہے۔

الزام دہندہ کو اپنے حق میں اس نوٹس کے ذریعے وجوہات فراہم کرنا ہوں گی، بصورت دیگر اس کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ سیکشن 250 میں ترمیم کے ذریعے کسی شخص کو غلط طور پر کیس میں شامل کیے جانے پر معاوضہ کے طور پر فرسٹ کلاس مجسٹریٹ پانچ لاکھ روپے جب کہ سیکنڈ کلاس مجسٹریٹ دو لاکھ روپے تک ادا کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ ماضی میں یہ رقم صرف 25 ہزار روپے اور 25 سو روپے تک محدود تھی۔

سیکشن 265 او کے تحت سیشن کورٹ کسی شخص کو کیس میں غلط طور پر شامل کرنے پر معاوضہ 10 لاکھ روپے دینے کا حکم دے سکتی ہے۔

نو ماہ میں کیس کی سماعت مکمل کی جائے گی

تجویز کردہ نئے سیکشن 265 پی کے تحت عدالتوں کوکسی بھی کیس کی سماعت نو ماہ کے اندر مکمل کرنی ہوگی اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں متعلقہ ہائی کورٹ کو اس کی وجوہات بتانی ہوں گی۔

ہائی کورٹ کی طرف سے وجہ کو تسلیم کیے جانے پر نئی ٹائم لائن اور وقت مقرر کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں کسی سرکاری مشکل کی صورت میں ہائی کورٹ کسی بھی سرکاری ادارے کو وہ رکاوٹ دور کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے۔

پلی بارگین

پاکستان میں فوجداری قوانین میں پہلی مرتبہ پلی بارگین کا تصور پیش کیا جا رہا ہے جس کے مطابق کسی جرم میں ملوث شخص کی طرف سے جرم تسلیم کرنے کے بعد مقدمہ دائر کرنے والے شخص کی مرضی پر سزا کو کم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ریپ، قتل، دہشت گردی، غداری اور دیگر سنگین جرائم پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔

سیکشن 266 کے مطابق پلی بارگین کا زیادہ استعمال مالی معاملات کےکیسز میں ہوگا جس میں ملزم متعلقہ عدالت میں پلی بارگین کی درخواست دائر کرے جس کےبعد عدالت پراسیکیوٹر اور شکایت کنندہ کو نوٹس جاری کرے گی۔

عدالت کے اس بات پر مطمئن ہونے پر کہ ملزم کی طرف سے یہ درخواست رضاکارانہ بنیاد پر دی گئی ہے، عدالت کیس کے خاتمے کے لیے کام کرنے کی اجازت دے گی۔

کسی ملزم کے ایک جیسے معاملے میں دو بار آنے پر عدالت اس معاملے کو ختم بھی کرسکتی ہے۔

پلی بارگین کے لیے تمام فریقین کے درمیان تصفیہ ہونے کی صورت میں عدالت اس کیس کو ختم کرسکتی ہے اور تصفیہ نہ ہونے کی صورت میں کیس کو وہیں سے چلایا جائے گا جہاں پلی بارگین کی درخواست آئی تھی۔

سماعت مکمل ہونے کے ایک ماہ بعد فیصلہ

سیکشن 366 کے تحت عدلیہ کو پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ کسی کیس کی سماعت مکمل ہونے کے ایک ماہ کے اندر فیصلہ سنا دیں گے۔

اگر کسی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہ ہوسکے تو متعلقہ عدالت ہائی کورٹ کو اس بارے میں تحریری طور پر آگاہ کرے گی اور فیصلے کے لیے مزید وقت کی باقاعدہ تاریخ دے گی۔

ضمانت کا حق

سیکشن 496 میں تجویز کردہ ترمیم کے مطابق قابل ضمانت کیسز میں پولیس اسٹیشن انچارج ضمانت لینے کا اختیار رکھتا ہے، جب کہ عدالت میں پیش ہونے کی صورت میں تحریری کے بجائے عدالت میں زبانی درخواست پر بھی عدالتی افسر ضمانت دینے کا اختیار رکھتا ہے۔

فرانزک ماہرین

کیسز میں اہم معاملہ فرانزک تفتیش کا ہے اور بہت سے آلات ہونے کے باوجود ان کی رپورٹس کو عدالتوں میں تسلیم نہیں کیا جاتا البتہ اب سیکشن 510 میں ترمیم کی جا رہی ہے جس کے بعد فرانزک ماہرین کے شواہد کو عدالتوں میں تسلیم کیا جاسکے گا۔

کیمیکل ایگزامینر، فرانزک سائنس دان، فرانزک کمپیوٹر یا سائبر ماہرین، فنگر پرنٹ ماہر،فائر آرم ماہرین کی رپورٹس کو تسلیم کیا جائےگا۔

اسی سیکشن کے تحت کسی ماہر کی تحریر کردہ رپورٹ کے بعد اسے عدالت میں طلب کرنے کی ضرورت نہ ہو گی تاہم اس بارے میں عدالت کے طلب کرنے پر انہیں بلایا جاسکتا ہے۔ تاہم ماضی میں کسی بھی ماہر کو اپنی تحریری رپورٹ دینے کے بعد عدالت میں آکر اس کی تصدیق اور جرح کا حصہ بھی بننا پڑتا تھا۔

پولیس کے لیے فنڈز

سیکشن 568 کے ذریعے حکومت کو اس بات کا پابند کیا جا رہا ہے کہ ہر پولیس اسٹیشن کو اخراجات پورے کرنے، اسٹیشنری، فیول اور تفتیش کے لیے فنڈز فراہم کرے گی۔سیکشن 569 کے تحت حکومت تمام عدالتوں کا ریکارڈ جدید آلات کے ذریعے کمپیوٹرائز کرے گی۔

پاکستان پینل کوڈ میں ترامیم

حکومت کی طرف سے پاکستان پینل کوڈ میں ترامیم تجویز کی جارہی ہیں۔

خاتون کا پیچھا کرنے پر سزا

پاکستان پینل کوڈ میں ایک نئی دفعہ 354 بی کا اضافہ کیا جا رہا ہے جس کے مطابق کسی خاتون کی طرف سے پولیس کو کی جانے والی شکایت پر پولیس کی طرف سے اس شخص کو وارننگ دی جاسکتی ہے۔

دوسری مرتبہ ایسا کرنے پر تین ماہ قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی جاسکتی ہے۔ جب کہ بار بار ایسا کرنے پر ایک سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔

اس سیکشن کے تحت صرف پیدل ہی نہیں بلکہ انٹرنیٹ پر کسی خاتون کا ای میل ایڈریس، سوشل میڈیا کے ذریعے پیچھا کرنے پر بھی شکایت درج کی جاسکتی ہے۔

چوری اور نوسربازی کی سزاؤں میں اضافہ

پی پی سی کے کسی قسم کی چوری سے متعلق سیکشن 379 میں موجود تین سال کی سزا کو بڑھا کر 5 سال اور دھوکہ دہی کے سیکشن 420 کے تحت سات سال سے 10 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

منظم فساد اور شرارت پر 10 سال کی سزا

پی پی سی کی دفعہ 427 میں پہلے کسی شخص کو 50 روپے کا نقصان پہنچانے پر سزا رکھی گئی تھی لیکن اب اس رقم کو بڑھا کر ایک ہزار روپے کر دیا گیا ہے تاہم سزا میں 10 سال تک کی مدت مقرر کی گئی ہے۔

سیکشن 435 کے مطابق اسلحہ اور آگ لگانے کے ذریعے ہونے والے فساد پر کم ازکم دو سال اور زیادہ سے زیادہ سات سال کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ عدالت کے ذریعے عائد کردہ جرمانہ کی رقم متاثرہ شخص کو ادا کی جائے گی۔

باؤنس چیک پر نوٹس دینے کے لیے دس دن

سیکشن 589 ایف جو چیک باؤنس ہونے سے متعلق ہے اس میں ترمیم تجویز کی گئی ہے کہ جس شخص کے پاس چیک موجود ہوگا وہ رقم ادا کرنے والے شخص کو تحریری نوٹس جاری کرے گا اور 10 دن کے اندر جواب نہ آنے کی صورت میں قانونی کارروائی کا آغاز ہوگا۔

بعض کیسز میں گارنٹی کے چیکس پر ایف آئی آرز درج کرا کر رقوم حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جسے روکنے کے لیے یہ ترمیم تجویز کی گئی ہے۔

خواتین پر مظالم روکنے کے لیے نئے سیکشن

پی پی سی میں 498 ڈی کا اضافہ کرنے کی تجویز ہے جس کے مطابق خاتون کے شوہر یا اس کے رشتہ داروں پر خاتون پر ظلم ثابت ہونے کی صورت میں تین سال قید تک کی سزا دی جاسکے گی۔

اس دفعہ کے مطابق ایسا کوئی اقدام جس کی وجہ سے خاتون خودکشی کی کوشش کرے۔ اس کو جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچے۔ اس کی زندگی کو خطرہ ہو۔ ہراسمنٹ کے ذریعےجائیداد پر قبضہ کی کوشش ہو، تو یہ سب عورت پر ظلم کے زمرے میں آئیں گے۔

مسلح افواج کو بدنام کرنے پر سزا

پاکستان پینل کوڈ میں ایک نئے سیکشن 500 اے کا اضافہ کرنے کی تجویز ہے جس کے مطابق جان بوجھ کر پاکستان کی مسلح افواج کو بدنام کرنے پر دو سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی جاسکے گی۔

تاہم اگر ایسی شکایت پاکستان کی مسلح افواج کی طرف سے کی جائے گی تو وہ پاکستان فوج کے جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ کی طرف سے دائر کی جائے گی ۔

رحم کی اپیلیں

سی آر پی سی اور پی پی سی میں تبدیلی کے علاوہ رحم کی اپیلوں کا طریقۂ کار بھی تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس کے مطابق تمام رحم کی اپیلوں کے لیے ہر مرحلے کے لیے وقت مقرر کیا جا رہا ہے۔

وزارت داخلہ 30 دن میں اس اپیل کو آگے بھجوانے یا واپس ارسال کرنے کی پابند ہوگی۔

گریڈ 19 کا افسر اس حوالے سے فوکل پرسن مقرر کیا جائے گا جو ان تمام رحم کی اپیلوں کی نگرانی کرے گا۔

وزارتِ قانون نے جیل قوانین میں ترامیم کے لیے بھی مختلف تجاویز حکومت کو بھجوائی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں