خانیوال: تلمبہ میں توہین مذہب کے مبینہ الزام پر ہجوم کے ہاتھوں ذہنی مریض قتل، 62 افراد گرفتار

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) صوبہ پنجاب میں مبینہ توہینِ مذہب پر ہجوم کے ہاتھوں شہری کی ہلاکت کا ایک اور واقعہ پیش آیا ہے جس کی ابتدائی رپورٹ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو پیش کر دی گئی ہے۔

پنجاب کے ضلع خانیوال کے علاقے تلمبہ میں ہفتے کو ہجوم نے ایک شخص پر توہینِ مذہب کا الزام لگاتے ہوئے اسے تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل راؤ سردار علی خان نے اتوار کو اس واقعے کی رپورٹ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کو پیش کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق واقعے میں 33 افراد نامزد جب کہ 300 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں سنگین جرائم اور دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔

پولیس نے واقعے میں ملوث 62 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا ہے جن میں مرکزی ملزمان بھی شامل ہیں۔ مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

غیر ملکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس حکام نے بتایا ہے کہ ملزمان کی شناخت اور ان کے کردار کا تعین واقعے کی دستیاب فوٹیجز اور فرانزک جائزے کی مدد سے کیا جائے گا۔

پولیس حکام کا کہنا تھا کہ واقعے کے بارے میں سوشل میڈیا پر خبریں آنے کے بعد سے ملزمان روپوش ہو گئے ہیں جن کی گرفتاری کے لیے پولیس کی ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کا خفیہ آپریشن ہفتے کو رات بھر جاری رہا اور اب بھی ٹیمیں فیلڈ میں موجود ہیں۔

واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے پولیس حکام نے کہا کہ ہفتے کو تلمبہ کے گاؤں جنگل ڈیرہ میں مغرب کی نماز کے بعد مبینہ طور پر اعلانات ہوئے کہ ایک شخص نے قرآن کے اوراق پھاڑ کر جلا دیے ہیں۔ جس پر سینکڑوں افراد جمع ہو گئے اور اس شخص کو تشدد کر کے مار ڈالا۔

پولیس حکام کا کہنا تھا کہ واقعے کے فوراً بعد پولیس نے گاؤں پہنچ کر ملزم کو اپنی حراست میں لے لیا تھا لیکن مشتعل ہجوم نے اسے پولیس کی حراست سے بھی چھڑا لیا۔

پولیس حکام کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملزم بظاہر بے قصور تھا اور وہ شور مچاتا رہا کہ اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ لیکن کسی نے اس کی بات نہیں سنی، اسے پہلے درخت سے لٹکایا اور پھر اینٹیں مار کر ہلاک کر دیا۔

مقامی صحافی عامر حسینی نے ڈیلی اردو کو بتایا کہ مقتول نے چندے کے بکس سے پیسے نکالے اور عالم دین نے سپیکر پہ توہین قرآن کا شور مچا دیا۔ ہجوم نے بلا تصدیق پتھر اور اینٹیں مار کر مشتاق احمد نامی شخص کو ہلاک کر دیا۔ ذرائع کا کہنا ہےکہ مقتول پچھلے 15 سالوں سے ذہنی طور پر معذور تھا۔

مقتول کے بھائی رانا زوالفقار سے میں نے فون پہ رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کا بھائی 16 سال پہلے توازن کھو بیٹھا تو انہوں نے ماہر نفسیاتی امراض کرنل شیر علی سے کئی سال اس کا علاج کرایا اور ان کی کل 6 ایکٹر زمین اس علاج میں بک گئی اور ہمارا خاندان روزگار کے لیے کراچی منتقل ہوگیا اور اب بھی وہاں کام کرتے ہیں۔

خانیوال سے ایک اور صحافی قلزم بشیر احمد کے مطابق واقعے میں ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت مشتاق احمد ولد بشیر احمد کے نام سے ہوئی ہے۔ وہ قریبی گاؤں بارہ چک کے رہائشی تھے اور ان کی میت ان کے سوتیلے بھائی نے وصول کرلی ہے۔

قلزم بشیر احمد کے مطابق ’بارہ چک کے رہائیشیوں نے بتایا ہے کہ ملزم کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا اور وہ کئی کئی دن گھر سے باہر رہتے تھے۔ ذہنی توازن درست نہ ہونے کی بنا پر ان کی اہلیہ نے بھی چار سال قبل ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور بچے بھی اپنے ہمراہ لے گئی تھیں۔‘

دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔ ​

ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں عمران خان نے کہا کہ کسی فرد یا گروہ کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش قطعاً برداشت نہیں کی جائے گی اور ہجوم کے تشدد کو سختی سے کچلیں گے۔

عمران خان نے مزید کہا کہ انہوں نے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں