پرویز مسیح: لاہور میں 7 بہنوں کا اکلوتا بھائی قتل، 200 افراد کیخلاف مقدمہ درج، 9 گرفتار

لاہور (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) صوبہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں مسیحی نوجوان کے قتل کے الزام میں پولیس نے نو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

مسیحی نوجوان کی ہلاکت کا یہ افسوسناک واقعہ سوموار کے روز لاہور کے علاقے والٹن کینٹ میں ایک بڑے شاپنگ سٹور کے قریب ایل ڈی اے کوارٹرز میں پیش آیا جہاں مقامی نوجوانوں کے حملے میں ایک مسیحی نوجوان پرویز مسیح ہلاک ہو گئے تھے۔

پولیس کی تفتیش

ڈی ڈبلیو سے خصوصی انٹرویو میں پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کامران عادل نے بتایا کہ مقامی نوجوانوں کے حملے میں مسیحی نوجوان کی ہلاکت کی لرزہ خیز واردات کی تحقیقات جاری ہیں۔ ان کے بقول علاقے کے ویڈیو کیمروں کی سی سی ٹی وی فوٹیجز، عینی شاہدوں کے بیانات اور شواہد کے فرانزک تجزئیے کی مدد سے اس افسوسناک سانحے کی تمام پہلووں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1493616041187889152?t=fbPCqNCY8caqHgEG2oZctw&s=19

کامران عادل کے مطابق، ”تحقیقات میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے اور ہم اس سانحے میں ملوث مختلف لوگوں کے کردار کو متعین کر رہے ہیں، (یاد رہے اس قتل کا مقدمہ 9 مرکزی ملزمان کے علاوہ ڈیڑھ سے دو سو دیگر نامعلوم افراد کے خلاف درج کروایا گیا ہے) میرے لئے مناسب نہیں ہے کہ میں اس مرحلے پر اس مقدمے کے میرٹ پر بات کروں ابھی وجہ تنازعہ واضح نہیں ہے تاہم تفتیش کے بعد اصل صورتحال سامنے آ جائے گی‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی آئی جی کا کہنا تھا،” قتل کی اس واردات کا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے، متاثرہ فیملی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور متاثرہ خاندان کو تحقیقات سے آگاہ رکھا جا رہا ہے‘‘۔

اس سوال کے جواب میں کہ منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کے لئے آپ کیا کر رہے ہیں، ڈی آئی جی (آپریشن) کامران عادل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور اعلیٰ پولیس افسران اس واقعے کی تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے نتائج اخذ کرنا مناسب نہیں ہو گا۔

مسیحی کمیونٹی خوف و ہراس کی شکار

اس سوال کے جواب میں کہ خوف و ہراس کی شکار مسیحی کمیونٹی کو ٹراما سے نکالنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں۔ کامران عادل نے بتایا کہ متاثرہ علاقے میں پولیس کی خصوصی نفری تعینات کر دی گئی ہے اور پولیس کا گشت بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق حالات مکمل طور پر کنٹرول میں ہیں اور کسی قسم کی قانون شکنی سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔

سینیئر تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ امر افسوسناک ہے کہ ایسے واقعات کے بعد ملک میں اقلیتیں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حال ہی میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے واقعات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے اور یہ صورتحال داخلی اور خارجی سطح پر پاکستان کے امیج کو متاثر کر رہی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اقلیتوں کے خلاف ہونے والے حملوں کے واقعات پر قانون تیزی سے حرکت میں آئے تاکہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔

مسیحی رہنما کو موقف

ممتاز مسیحی رہنما سیمسن سلامت پولیس کے ان دعووں کی تصدیق نہیں کر رہے ان کا کہنا تھا کہ مسیحی نوجوان کی ہلاکت سے ایک دن پہلے جب مسیحی نوجوانوں پر حملہ کیا گیا تو ان کی مقامی تھانے میں شنوائی نہیں ہوئی۔ اگر اس واقعے کا جلد پرچہ درج کر لیا جاتا اور مجرموں کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی تو پھر کسی کو دوبارہ قانون ہاتھ میں لینے کی جرات نہ ہوتی۔ ”ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ملزمان جو کہ پہلے حملے کی پاداش میں پولیس اسٹیشن میں مقدمے کے اندراج کی وجہ سے طیش میں تھے، انہوں نے مسیحی نوجوانوں پر حملہ کیا، دو افراد نے مقتول مسیحی نوجوان پرویز مسیح کے دونوں ہاتھ پکڑے اور تیسرے ملزم نے پکی اینٹ سے پرویز مسیح کے سر پر وار کئے، پرویز مسیح ان زخموں کی تاب نہ لا سکا اور مقامی ہسپتال میں دم توڑ گیا‘‘۔

مقتول پرویز مسیح

ایف آئی آر کے مطابق پرویز مسیح شادی شدہ تھا اور سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ جائے واردات پر موجود ایک نوجوان افضل کے مطابق پرویز مسیح اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا۔ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے پرویز مسیح کی آخری رسومات کے موقعے پر ان کے رشتہ داروں کی طرف سے بہت جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ تدفین سے پہلے اس سانحے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔ شہر کے مختلف علاقوں سے لوگ مسیحی فیملی کے ساتھ اظہار افسوس کے لئے آ رہے ہیں۔

اس کیس کی تحقیقات سے وابستہ پولیس اہلکاروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق بظاہر یہ مقامی آبادی کے مسلم اور مسیحی نوجوانوں کا جھگڑا معلوم ہوتا ہے اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسیحی رہنما سیمسن سلامت کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ واقعہ کسی مذہبی رنجش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ مقامی نوجوانوں کی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سیمسن سلامت کا کہنا تھا کہ پرویز مسیح کے قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور غفلت برتنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے۔ انہوں نے اپیل کی کہ پر امن رہتے ہوئے انصاف کے حصول کی جدوجہد جاری رکھی جائے اور اس معاملے کو مذہبی رنگ نہ دیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں