برلن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستانی صحافی اور ٹی وی پروگرام میزبان اقرار الحسن کا کہنا ہے کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنانے والے اہلکاروں کی معطلی کافی نہیں بلکہ ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
پاکستانی کے جنوبی شہر اور تجارتی مرکز کراچی میں انٹیلیجنس بیورو کے اہلکاروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے معروف ٹی وی اینکر اور صحافی اقرار الحسن نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ ان پر تشدد کرنے والے اہلکاروں کی محض معطلی کافی نہیں ہو گی بلکہ انہیں گرفتار کر کے ان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
اس سے قبل پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی اپنے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ اقرار الحسن اور ان کی ٹیم کو ایک وفاقی ادارے کے دفتر میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعے میں ملوث اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
اقرارالحسن کے معاملے پر سلمان اقبال سے تفصیلی بات کی ہے، انشاللہ ذمہ داران سزا سے نہیں بچ سکیں گے ،
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) February 15, 2022
اس واقعے پر صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا کہ یہ عالمی تنظیم اے آر وائی نیوز چینل سے وابستہ صحافی اقرار الحسن کو برہنہ کرنے، ان کی آنکھوں پر پٹی باندھنے اور ان پر تشدد کرنے کی مذمت کرتی ہے۔
#Pakistan: Wir verurteilen die Misshandlung des @ARYNEWSOFFICIAL-Journalisten @iqrarulhassan aufs Schärfste! Er war drei Tage in Haft; dabei zwang ihn das #IntelligenceBureau (IB), einer der Geheimdienste des Landes, sich nackt auszuziehen und folterte ihn mit verbundenen Augen. https://t.co/onB6kvHP9H
— Reporter ohne Grenzen (@ReporterOG) February 15, 2022
ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں اقرار الحسن نے بتایا کہ کراچی میں ایک بنگالی خاندان کی جانب سے ان کی ٹیم سے رابطہ کیا گیا تھا کہ انٹیلیجنس بیورو کا ایک اہلکار اس خاندان کی شہریت سے متعلق معاملے کی تصدیقی جانچ کے عوض ساٹھ ہزار روپے رشوت کا مطالبہ کر رہا ہے، ”ہماری ٹیم کے ایک رکن نے اس خاندان کے ایک فرد کے روپ میں اس اہلکار سے ملاقات کی۔ اس اہلکار کو تین مختلف مراحل میں یہ رقم دی گئی، جب کہ اس دوران اس کی ویڈیو فوٹیج بنائی گئی۔
آئی بی انسپکٹر کاشف جس کے رشوت کے ثبوت لے کر ہم انٹیلیجنس بیورو کے دفتر پہنچے تھے، اسی گستاخی پر ڈائریکٹر آئی بی رضوان شاہ اور اُن کی ٹیم نے اسلحہ نکال کر ٹیم سرِعام پر خونریز تشدد کیا۔ بدمعاشی کا یہ عالم ہے کہ حملے کی ابتدائی ریکارڈنگ والے ہمارے کیمرے ابھی تک واپس نہیں کئے گئے pic.twitter.com/r51KrGviKg
— Iqrar ul Hassan Syed (@iqrarulhassan) February 15, 2022
ہمارے پاس ریکارڈنگ موجود ہے، ایک بار بیس ہزار روپے پھر چوبیس ہزار روپے اور اس سلسلے میں آخری قسط بارہ ہزار روپے کی تھی، جو یہ اہلکار کراچی میں واقعے آئی بی کے دفتر کے مرکزی دروازے کے باہر وصول کر رہا تھا۔ یہ ریکارڈنگز بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔‘‘